آں حضرت ﷺ نے کبھی بھی صفوں کی درستگی کو نظر اندار نہیں فرمایا، آپ کا ارشاد تھا کہ ’’تسویۂ صف نماز کے کمال سے ہے‘‘۔ صفیں جس قدر سیدھی اور ہم وار ہوتی ہیں اور نمازی جتنا مل مل کر کھڑے ہوتے ہیں، اسی قدر نماز میں کیف ونشاط پیدا ہوتا ہے اور دلوں میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔
سَوُّوْا صُفُوْفَکَمْ؛ فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوْفِ مِنْ تَمَامِ الصَلَاۃِ۔
’’صفیں درست اور برابر کرو، کہ یہ چیز کمالِ نماز سے ہے‘‘۔ (مسلم: ۱/ ۱۸۲)
ایک دفعہ اقامت ہوچکی تھی کہ آپ اپنے چہرۂ انور سے صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
أَقِیْمُوْا صُفُوْفَکُمْ، وَتَرَاصُّوْا؛ فَإِنِّيْ أَرَاکُمْ مِنْ وَرَائِ ظَہْرِيْ۔ (البخاري)
’’تم اپنی صفیں ان کے حقوق کے ساتھ کھڑی کرو، کیوں کہ میں تم کو اپنے پیچھے کی طرف سے بھی دیکھتا ہوں‘‘۔
اس قدرتی نظام میں اس کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ مقتدی ایک منظم فوج کی طرح اپنے امام کی ماتحتی میں کھڑے ہوں، جو امام کے ایک ایک اشارہ کی پابندی کریں۔ ساتھ ہی اس دینی فوج میں جو احکم الحاکمین کی اطاعت میں صف بستہ ہے، کوئی انتشار، پراگندگی، شور وہنگامہ اور نظم وضبط کے خلاف معمولی بات بھی پائی نہ جائے، تا کہ شیطان کو خوشی اور حملے کا کوئی رخنہ نظر نہ آئے۔
{اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌO}۔1
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوخاص طور پر پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
کہیں سے بھی یہ نظر نہ آئے کہ اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں کوئی نقص ہے، اور ان کا کوئی فرد اپنے امیر اور کمانڈر کے حکم کے ذرہ برابر خلاف ہے، تاکہ اس طرح باطن اور بھی گتھ جائے۔ اور امیر کو ہرگز ہرگز یہ کہنے پر مجبور نہ کیا جائے:
مَالِيَ أَرَاکُمْ عِزِیْنَ؟ (مسلم: ۱/۱۸۱)
’’کیا بات ہے کہ تم کو بٹا ہوا دیکھتا ہوں‘‘۔
آں حضرت ﷺ نے ایک ایک بات کھول کر بیان کردی ہے اور عملی تعلیم دے کر امت کے لیے شاہراہ قائم فرما گئے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اِسْتَوُوْا وَلَا تَخْتَلِفُوْا، فَتَخْتَلِفَ قُلُوْبُکُمْ۔ (مسلم: ۱/۱۸۱)
’’برابر کھڑے ہو، اختلاف نہ ہو، کہ اس کا اثر تمہارے دلوں پر پڑے گا‘‘۔