ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد اول )-------------------------------------------------------------- 36 ہے کہ سناء فائدے کی چیز تھی اور طبیب نے مفید سمجھ کر لکھی تھی ۔ مگر خاص ہی مقدار تک مفید ہے اور اس سے زائد مریض کے لئے سخت مضر ہو گی ۔ یہی حال اعمال باطنی کا ہے ۔ نصوص میں تدبر کرنے سے اس کا پتہ لگتا ہے ۔ چنانچہ اسی بناء پر حضرت شیخ اکبر ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ارشاد ہے کہ قبول توبہ کی علامت گناہ کا بھول جانا ہے ۔ یعنی اس کا خیال پر غالب نہ رہنا ۔ مگر بعد توبہ ہو ۔ اور اگر قبل ہے تو وہ غفلت ہے ۔ اور دیکھا بھی جاتا ہے کہ جن دوستوں میں کبھی مخالفت رہ چکی ہو ، اگر دوستی میں اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ایک دوسرے کے دل پر میل آ جاتا ہے اور عورتوں میں یہ عادت زیادہ ہے کہ اتفاق و محبت کی حالت میں دشمنی کے زمانہ کے تذکروں کو لے بیٹھتی ہیں ۔ جس سے محبت مکدر ہو جاتی ہے اور وہ نصوص جن میں غور و فکر کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہے یہ ہیں : لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ۔ اس میں ایک تو یہ بحث ہے کہ ذنب کا اطلاق کیا گیا صاحب نبوت کے حق میں جو کہ معصوم ہے ۔ یہ بحث جدا گانہ ہے ، اس کو مسئلہ مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہاں پر مقصود اس کے ذکر سے یہ ہے کہ پہلے گناہوں کی معافی تو سمجھ میں آ سکتی ہے ، لیکن پچھلے گناہوں کی معافی جو ابھی تک ہوئے ہی نہیں ، کیا معنی ۔ تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر چونکہ خوف و خشیت کا غلبہ تھا ، اگر آپ کو آئندہ گناہوں کی معافی دے کر تسلی نہ دی جاتی تو اندیشہ تھا کہ غلبہ خوف سے اسی فکر میں آپ پریشان رہتے ۔ کہ کہیں آئندہ کوئی امر خلاف مرضی نہ ہو جائے ۔ اس لئے آپ کو آئندہ کے لئے بھی مطمئن کر دیا گیا ۔ دوسری آیت اس کی موید یہ ہے کہ حق جل و علی سلیمان علیہ السلام کو فرماتے ہیں کہ ھذا عطاءنا فامنن او امسک بغیر حساب ۔ اس میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ بغیر حساب کو عطاءنا کے متعلق کیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ عطا بے حساب ہے ، یعنی کثرت سے ہے ۔ اور دوسرا احتمال اور وہ بہت موجہ معلوم ہوتا ہے