ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
مقالات حکمت ( جلد اول )------------------------------------------------------------- 159 ( 22 ) تقدیر تدبیر کے مساعد ہوتی ہے : ایک تذکرہ پر فرمایا کہ تدابیر اگرچہ نافع ہیں اور حدیث میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تدبیر کرنے کا حکم فرمایا ہے ، لیکن تدبیر کارگر اسی وقت ہوتی ہے جبکہ تقدیر بھی مساعد ہو ۔ اور اگر تقدیر تقدیر مساعد نہ ہو تو تدبیر کچھ کام نہیں دے سکتی ۔ اور چونکہ قبل از تدبیر مساعدت یا عدم مساعدت کی اطلاع نہیں ، اس لئے تدبیر کرنے کا حکم ہے اور بعض لوگ جو اپنی تدبیر پر نازاں ہوتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے ۔ تدبیر سے کچھ نہیں ہوتا ۔ مگر چونکہ ان لوگوں کی تقدیر تدبیر کے ساتھ مساعد تھی ، اس لئے وہ کارگر ہو گئی ۔ ورنہ اگر تدبیر ہی کوئی چیز ہوتی تو کیا وجہ ہے کہ ایک ہی کام کو دو شخص ایک سی تدابیر سے شروع کرتے ہیں ۔ لیکن ایک کامیاب اور دوسرا ناکام ہوتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ ہر اختیاری کام کے جس قدر اسباب ہیں ان کا سلسلہ امور غیر اختیاریہ پر جا کر ختم ہوتا ہے ۔ یعنی ہر عمل کے اخیر میں کوئی ایسی چیز ہے کہ جس پر پہنچ کر ہم بالکل بے دست و پا ہیں ، یہی تقدیر ہے ۔ اس پر ایک صاحب نے جو وہاں موجود تھے یہ سوال پیش کیا کہ جب انسان کے ہر فعل میں انتہا ایک امر خارج عن الاختیار پر ہے تو انسان کے مواخذ اور معذب ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ کیونکہ مواخذے کے لئے جو داخل تحت الاختیار ہونا شرط ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کام خود داخل تحت الاختیار ہو ۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کے شرائط موقوف علیہا بھی داخل تحت الاختیار ہو ۔ اس کے بعد ان ہی صاحب نے یہ کہا کہ اس کے متعلق دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالی کو علم تھا کہ انسان ہوائے نفسانی میں مبتلا ہو کر میری نافرمانی کرے گا اور اس کی قسمت میں بھی لکھ دیا تھا تو میں قسمت کی وجہ سے مجبور تھا ۔ فرمایا کہ یہ مجبوری عمل کرنے کے بعد معلوم ہوئی ، یعنی جب گناہ کر چکا اس وقت خبر ہوئی کہ یہ گناہ میری قسمت میں لکھا ہوا تھا ۔ اس کے قبل جب گناہ کیا ہے اس کی خبر نہ تھی اور اگر کہا جائے کہ گو اس کو علم تقدیر کا نہ تھا مگر واقع