ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول ) ------------------------------------------------------------- 216 الآخرت کی نفی ہوتی ہے ۔ فرمایا کہ جی نہیں کلام مجید میں صفت غالبہ کے اعتبار سے عنوانات اختیار کئے گئے ہیں ۔ مغضوب علیہم یہود کے لئے فرمایا گیا ہے ۔ ان میں صفت مغضوبیت غالب تھی ۔ کیونکہ باوجود علم کے محض شرارت و عناد کی رو سے مخالفت کرتے تھے ۔ ایسے لوگ زیادہ مورد غضب ہوتے ہیں ۔ اور ضالین سے مراد نصاری ہیں ۔ ان میں صفت ضلال غالب تھی ، کیونکہ عیش پرستی وغیرہ کی وجہ سے دین سے غافل اور بے پروا تھے ۔ لہذا ضالین میں ان کی صفت ضلال کا اظہار فرمایا گیا ہے ۔ گو مغضوب فی الاخرۃ وہ بھی ہوں گے ۔ دوبارہ استفسار پر فرمایا کہ قرینہ ضالین سے تو مغضوب علیہم میں غضب فی الدنیا مراد معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ ضالین کا ضلال بالمعنی المذکور دنیا میں واقع ہوا تھا ۔ 7 ۔ دعا اور توجہ متعارف الگ الگ ہیں : ایک موقع پر اشکال پیش کیا گیا کہ توجہ متعارف کو کاملین اکثر ناپسند فرماتے ہیں ۔ حالانکہ دعا میں بھی تو توجہ ہوتی ہے ۔ دعا کے بعد جو اثر ہوا اس کو بھی توجہ ہی کا اثر کیوں نہ کہا جائے ، کیونکہ آخر دعا میں اس حالت کو جو دوسرے کے واسطے وہ خدا سے مانگ رہا ہے ، اس دوسرے کے اندر مثل موجود کے تصور کرتا ہے ۔ پھر اس حالت کا دراصل بعد کو موجود ہو جانا قوت خیالیہ پر کیوں نہ محمول کیا جائے ۔ مقبولیت دعا ہی کیوں سمجھا جائے ؟ فرمایا کہ توجہ کے تو خاص طریقے ہوتے ہیں ۔ بغیر اس طرح کئے اثر نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ توجہ میں قصد فاعلیت لازمی ہے اور دعا میں یہ مطلق نہیں ہوتا ۔ بلکہ خلاف اس کے اپنے آپ کو محض عاجز اور محتاج سمجھ کر خدا تعالی سے عرض کرتا ہے کہ آپ فلاں میں یہ حالت پیدا فرما دیں ۔ دعا میں تو سراسر اپنے عجز کا اقرار ہوتا ہے ، اس میں قصد فاعلیت کہاں ؟ اس لئے دعا کو توجہ متعارف میں