ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول )------------------------------------------------------------- 110 ہو ، باقی سب جائز ہے ۔ ( 37 ) تقوی ہدیہ کا سبب قریب ہو تو لینا مناسب نہیں : فرمایا تقوی کی وجہ سے جو نذرانہ دیا جاتا ہے اس کا لینا محمود نہیں ، لیکن اگر کسی شخص کے ساتھ بوجہ اس کے متقی ہونے کے لوگوں کو محبت ہو اور پھر وہ محبت سبب ہو جائے نذر پیش کرنے کا تو لینا جائز ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر تقوی ہدیہ مالی کا سبب قریب ہے تو لینا محمود نہیں ۔ اور اگر سبب بعید ہے تو مضائقہ نہیں ۔ ( 38 ) عبادات کی ظاہری صورتیں بھی مقصود بالذات ہیں : فرمایا بعض مصنفین کے ظاہری الفاط سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طہارت جسم و طہارت ثوب اور ظاہری صلوۃ مقصود بالذات نہیں ۔ یہ صرف ذریعہ اور واسطہ ہے ۔ باقی مقصود بالذات صرف طہارت قلب و تہذیب نفس ہے ۔ سو اگر اس قول کی تاویل نہ کی جائے تو یہ بالکل غلط ہے ، کیونکہ یہ نصوص شرعیہ کے خلاف ہے ۔ نیز اگر مقصود بالذات طہارت قلب اور اس کا ذاکر ہو جانا ہی ہے تو اگر یہ طہارت اور ذکر کسی دوسرے ذریعے سے حاصل ہو جائے تو چاہئے کہ نماز کی کوئی ضرورت نہ رہے اور اسی قلب کی طہارت کو اصل سمجھ کر فلاسفہ اور جاہل صوفیہ نے نماز وغیرہ سب کو چھوڑ دیا ، کیونکہ مجاہدات و ریاضات کو یا تہذیب متعارف کی وجہ سے اپنے قلب کو انہوں نے طاہر و ذاکر اور نفس کو مہذب سمجھا ۔ نیز اگر طہارت قلب ہی مقصود بالذات ہوتی اور ظاہر ہیئت صلوۃ کی مقصود نہ ہوتی تو ضرور تھا کہ حکم صلوۃ کو کسی علت کے ساتھ مثلا لان قلبکم مظلم دائر کیا جاتا کہ جہاں وہ علت ہوتی حکم بھی ہوتا اور جہاں وہ علت نہ ہوتی حکم بھی نہ ہوتا ۔ لیکن جب باری تعالی نے ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ نماز خود مقصود بالذات ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کے ساتھ طہارت معنوی بھی مقصود ہے ، مگر جزو مقصود ہونے میں اور کل