ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول ) ------------------------------------------------------------- 181 ( 42 ) اپنے عیوب کی فکر کرنی چاہئے : فرمایا کہ ہم لوگوں کی اوروں کے چھوٹے چھوٹے عیوب پر نظر ہے اور اپنے بڑے بڑے عیوب دکھائی نہیں دیتے ۔ اپنے بدن پر سانپ ، بچھو لپٹ رہے ہیں ان کی کچھ پرواہ نہیں ہے اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر ہے ۔ ( 43 ) لا الہ الا اللہ کہنے کا مطلب پورے دین کا پابند ہونا ہے : برسبیل وعظ بیان فرمایا کہ آج کل ترقی کا زمانہ ہے ۔ لوگ ہر چیز کا ست نکالنے لگے ہیں ۔ پیشتر بڑے بڑے قدحے کڑوی کڑوی دواؤں کے پینے پڑتے تھے ۔ کیسی دقت تھی ۔ اب چونکہ ست نکل آئے ہیں ، ایک بوند دوا کی بڑے بڑے قدحوں کا کام دیتی ہے ۔ کیسی آسانی ہو گئی ہے ۔ ایسے زمانے میں بھلا دین کیوں بچتا ۔ اس کا بھی لوگوں نے ست نکالا ہے اور ایسا ویسا نہیں نہایت معقول ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول حدیث سے ثابت ۔ یعنی من قال لا الھ الا اللہ دخل الجنۃ ۔ بس لا الہ الا اللہ کہہ لیجئے اور جنت میں داخل ہو جائیے ۔ لیجئے سارے بکھیڑوں سے بچ گئے ۔ نہ نماز کی ضرورت نہ دیگر ارکان و احکام کی حاجت ، نہ کوئی اور پابندی ۔ بس لا الہ الا اللہ کہا اور جنت میں پہنچ گئے ۔ کیسی آسانی ہو گئی ۔ کیسا نفیس ست نکل آیا ۔ لیکن حضرت یہ بھی خبر ہے کہ ست اس چیز کا نکلا کرتا ہے جس میں فضلہ ہو اور اگر کوئی ست کا ست نکالنا چاہے تو پھر وہی سارے کا سارا ست ہی نکل آئے گا ۔ اسی طرح چونکہ دین میں کچھ فضلہ ہی نہیں ، اس لئے اگر آپ دین کا ست نکالیں گے تو اس میں سارے کا سارا ہی دین نکل آئے گا ۔ سو جناب اس لا الہ الا اللہ کو آپ نے دین کا ست تجویز کیا ہے ۔ اس میں تو سارا ہی دین آ گیا ۔ اس کی میں یہ مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک شخص کا اس کے ماں باپ نے نکاح کر دیا ۔ قاضی صاحب نے