ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول )------------------------------------------------------------- 166 ڈالوں گا ۔ میری تو آبرو یا جان پر بن رہی ہے ۔ معلوم ہوا کہ عیش دولت کا نام نہیں ، بلکہ وہ قلب سے تعلق رکھتا ہے ۔ جس کا قلب مطمئن نہیں وہ عیش سے محروم ہے ۔ ایک شخص کو سو روپیہ ماہوار ملتے ہیں ۔ لیکن وہ ہمیشہ زیادہ کی ہوس میں رہتا ہے اور اپنے کو اس سے بھی زیادہ کا مستحق سمجھتا ہے ۔ اس کی ہوس کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ دوسرا ہے کہ صرف پانچ روپیہ ماہوار ملتے ہیں ، لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں تو ایک پیسہ کا بھی مستحق نہ تھا ۔ آخر ایسے آدمی بھی تو موجود ہیں جو بھوکوں مرتے ہیں ۔ ان میں اور مجھ میں کیا فرق ؟ اللہ تعالی نے تو مجھ کو پانچ روپیہ ماہوار عنایت فرمائے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص پانچ روپیہ پا کر اس قدر خوش ہو گا اور اس عطیہ کی ایسی قدر کرے گا کہ دوسرا شخص ایک سو روپیہ میں بھی ویسا خوش نہ ہو گا ۔ اب عیش اصلی یعنی غنائے قلبی اس پانچ روپیہ والے کو حاصل ہے اور سو روپے والے کو نہیں ۔ ( 7 ) دین میں اپنی طرف سے زیادتی کرنا بدعت ہے : بدعت کے بارے میں فرمایا کہ کوئی ظہر کی چار رکعت کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو اس کی وہ چار رکعت بھی نہ ہوں گی ۔ حالانکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے کوئی برا کام تو کیا نہیں ۔ نماز ہی پڑھی ہے ، بلکہ اور اچھا ہے کہ چار رکعت کے بجائے پانچ پڑھیں ۔ پھر نماز کیوں نہ ہوئی ؟ بات یہ ہے کہ اس نے خلاف ضابطہ کام کیا ۔ اس لئے چار رکعت بھی گزری ہوئیں ۔ جیسے کوئی لفافے پر بجائے ڈاک کے دو پیسے کے ٹکٹ کے کورٹ فیس کا ٹکٹ آٹھ آنے کا لگا دے تو خط بیرنگ ہو جائے گا ۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے بجائے دو پیسے کے آٹھ آنے خرچ کئے اور پھر بھی بیرنگ ہو گیا ۔ لیکن چونکہ اس نے ٹکٹ کا استعمال بے محل اور خلاف ضابطہ کیا ، اس لئے آٹھ آنے کا ٹکٹ ضائع گیا ۔ اسی ٹکٹ کو اپنے موقع پر یعنی عدالت میں لگاتا تو کام کا ہوتا ۔ اسی طرح پانچ رکعتوں کو سمجھ لیجئے ۔ مگر ان پانچ