ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول )-------------------------------------------------------------- 27 بعض ظاہر بین کوتاہ نظر جو شبہ کیا کرتے ہیں کہ احادیث و روایات میں بعض نعمائے جنت اور عذاب دوزخ کے بیان میں ستر ستر کی تحدید کیوں ہے ۔ اس کا جواب ہو گیا کہ بدلالت محاورہ عرب تحدید مراد نہیں ، بلکہ تکثیر مراد ہے ۔ اور ہر زبان کے محاورات اور خواص جدا ہوتے ہیں ۔ ( 20 ) جن کے رتبے ہیں سوا ، انہیں سوا مشکل ہے : ارشاد فرمایا کہ جیسے تجلی رحمت ہے ۔ ایسے ہی استتار بھی رحمت ہے ۔ اہل حال و اصحاب تجلی بعض دفعہ اگر امور مباحہ سے بھی فائدہ اٹھائیں تو ان سے مواخذہ کیا جاتا ہے اور تنبیہ ہوتی ہے ۔ ایک عارف ولی کا ذکر ہے کہ انہوں نے ایک روز روٹی کا جلا ہوا اوپر کا چھلکا کھاتے کھاتے توڑ کر الگ رکھ دیا ۔ اسی پر ان کو بذریعہ الہام تنبیہ ہوئی کہ کیوں جی اس چھلکے کے واسطے ہمارے آسمانوں نے چکر کھائے اور زمین نے اپنے قوی خرچ کئے ۔ پھر پس پسا کر پک پکا کر آپ کے سامنے یہ چھلکا آیا اور آپ نے اس کو فضول سمجھ کر الگ پھینک دیا ۔ کیا یہ سارا انتظام بیکار تھا ۔ اس وقت اس عارف نے جلا ہوا چھلکا کھا لیا ۔ اب جلا ہوا چھلکا نہ کھانا مباح تھا ، مگر اس عارف کو تنبیہ کی گئی بوجہ خصوصیت کے ۔ حسنات الابرار سیئات المقربین ۔ ایسا ہی ایک مجذوب صاحب حال کا قول ہے کہ ہم لوگوں کو حال پر گرفت ہوتی ہے ۔ تم کو قال پر ۔ قاضی ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بعض اصحاب صفہ کے قصے کی یہی توجیہ کی ہے ۔ یعنی ایک صاحب کے حق میں آنحضرت فرماتے ہیں جن کے پاس بعد انتقال کے ایک دینار اور ایک کے پاس دو دینار نکلے تھے ۔ کہ یہ اس کے لئے جہنم کا ایک داغ ہے یا دو داغ ہیں ۔ مطلب یہ کہ اصحاب صفہ کا حال و وضع اس پر دال تھا کہ ان کے پاس روپیہ جمع نہیں ۔ سو اس صحابی نے خلاف حال کے جو جمع کیا تو اس پر تعذیب ہوئی ۔