ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول )------------------------------------------------------------- 44 قدرت ضدین کے ساتھ متعلق ہوتی ہے ۔ پس یہ کہنا کہ بیدک الخیر یہ خود ہی بیدک الشر ہے ۔ لیکن من جملہ آداب سوال کے یہ بھی ہے کہ صرف مطلوب کو ذکر کرتے ہیں ۔ اس کی ضد کو ذکر نہیں کرتے ۔ گو مسئول منہ دونوں پر قادر ہوتا ہے ۔ مثلا سائل ملازمت یہ نہیں کہتا ۔ آپ کے اختیار میں ملازمت دینا بھی ہے اور موقوف کرنا بھی ۔ پھر تفسیر اپنی دیکھی ۔ اس مں دوسری وجہ لکھی ہے ۔ وہ بھی لطیف ہے جو وہاں مذکور ہے ۔ ( 47 ) ہاتھ پھیلانے والا پاؤں نہیں پھیلا سکتا : فرمایا کہ ایک عالم صاحب ظاہر شاہجہاں کے ساتھ کسی کامل کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ کامل جس طرح پاؤں پھیلائے تھے پھیلائے رہے ۔ ملا صاحب نے عرض کیا کہ اتنا بڑا سلطان حاضر خدمت ہوا اور آپ نے کچھ بھی اس کی تعظیم نہ کی ۔ فرمایا میاں ! جب تک ہاتھ پھیلائے تھے ، پیر سمیٹے رہے ۔ اور جب سے ہاتھ سمیٹا پیر پھیلائے ۔ ایسے ہی ایک مرتبہ ایک درویش نے اپنی گدڑی مرید کو چیلتر یعنی جو نئیں چننے کے لئے دی ۔ اور خود حجرے کے اندر جا ذکر میں مشغول ہو گئے ۔ ناگہان اکبر بادشاہ حاضر ہوا ۔ مرید نے بادشاہ کو دیکھ کر آواز دی ۔ درویش نے کنڈی کھول کر پوچھا کیا ؟ مرید نے عرض کیا کہ حضرت بادشاہ تشریف لائے ہیں ۔ فرمانے لگے لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ میں تو سمجھا کہ بڑی سی چیلڑ پکڑی ہے ۔ اس کے دکھلانے کے لئے پکارا ہے ۔ پھر بیان کیا کہ حضرات کاملین کا ملنا مختلف طور پر ہے ۔ ہمارے مرشد قبلہ حاجی صاحب کا یہ دستور تھا کہ اگر کوئی امیر حاضر خدمت ہوتا ، آپ اس کی تعظیم فرماتے ، اور فرماتے تھے کہ جب امیر فقیر کے دروازے پر آیا وہ امیر کب رہا ، فقیر ہو گیا ۔ اور فقیر کی تعظیم میں کیا ہرج ۔ چنانچہ بزرگوں کا قول ہے : نعم الامیر علی باب الفقیر و بئس الفقیر علی باب الامیر ۔ پس یہ تعظیم اس کی امارت کی نہیں ، اس کے نعم ہونے کی ہے ۔