ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول )------------------------------------------------------------- 160 میں تو علم الہی اس کے متعلق تھا اور اس کا خلاف محال ہے تو اس طرح واقع میں مجبور ہوا ۔ جواب یہ ہے کہ علم الہی اس طرح تھا کہ یہ شخص اپنے اختیار سے ایسا کرے گا تو اختیار منفی ہوا یا اور موکد ہو گیا ۔ پھر ان ہی صاحب نے یہ کہا کہ اگرچہ انسان کا مجبور ہونا لازم نہیں آتا ، لیکن خدا تعالی رحیم ہیں ۔ اس لئے اگر اپنی رحمت سے ہوائے نفسانی کو پیدا ہی نہ کرتے تو انسان کے لئے بہتر ہوتا ۔ اس پر فرمایا کہ خدا تعالی کی متعدد صفات ہیں از انجملھ ایک صفت حکیم ہونا بھی ہے اور ہر صفت کا ایک خاص ظہور ہے ۔ پس جس طرح ہوائے نفسانی وغیرہ کا پیدا نہ ہونا مقتضائے حکمت ہے ، اسی طرح ان کا پیدا ہونا مقتضائے رحمت ہے ۔ رہا یہ سوال کہ وہ حکمت کیا ہے ؟ اس کا اصل جواب یہ ہے کہ ہم کو اس حکمت کی اطلاع نہیں ہے اور فرمایا کہ یہ جواب اگرچہ کم فہموں کے نزدیک زبردستی کا جواب معلوم ہوتا ہے ، لیکن اصل جواب یہی ہے ۔ البتہ اس جواب کی حقیقت سمجھنے کے لئے اس کے قبل چند مقدمات کے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک وہ سمجھ میں نہ آئیں اس وقت تک اس کی حقیقت سمجھنی مشکل ہے اور اسی وقت تک یہ زبردستی کا جواب نظر آتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ جب انسان کے ہر عمل میں اختیار کا سلسلہ امور غیر اختیاریہ تک پہنچتا ہے جس سے اہل سائنس بھی انکار نہیں کرتے اور بناء تقدیر کی یہی امر ہے ۔ جیسا اوپر بیان ہوا تو اہل طبعیات کو تو تقدیر کا ضرور ہی قائل ہونا چاہئے ۔ کیونکہ وہ لوگ تو اس مسئلہ انتھاء الاختیاری الی غیر الاختیاری کو اس حد تک عام مانتے ہیں کہ خدا تعالی کے افعال اختیاری کو بھی اس قاعدے کا پابند کرتے ہیں ۔ چنانچہ تخلیق اختیاری کو موقوف مانتے ہیں وجود مادہ قدیمہ پر ، جس کو اختیار خداوندی سے خارج کہتے ہیں ، گو اہل حق اس کے قائل نہیں ۔ پس اس تسلیم کردہ مسئلہ کی بنا پر ان طبعیین کو تو ہم سے زیادہ قائل تقدیر ہونا چاہئے ۔