مکاتبت سلیمان |
|
بھاولپور، راندیر وغیرہ کی تقریریں ان کی مثالی بصیرت اورفہم وفراست کی آئینہ دار ہیں ۔ سید صاحبؒ نے واردھا تعلیمی اسکیم اور سیکولر طریقہ تعلیم کے خطرات کے خلاف مسلمانوں کو بہت پہلے آگاہ کیا اور انہیں تعلیمی خود کفالتی کا راستہ دکھایا، تاریخ اسلام اور تاریخ ہندکومسلمان مؤرخین کے ذریعے لکھے جانے کی اپیل کی۔ اسی زمانے میں جب مسلم لیگ اور کانگریس کی آویزش نمودار ہوئی تو سید صاحب نے مسلمانوں کو بڑے معتدل، نتیجہ خیز اور دوررس مشورے دیئے اور سیاست وحکومت سے پہلے ایمان وعمل کے ذریعے اپنے اندر قائدانہ صلاحیت تنظیم واجتماعیت، اور اقتصادی واجتماعی، اخلاقی برتری پیدا کرنے پرزوردیا۔ ۱۹۴۶ءسے ۱۹۵۰ء تک بھوپال میں آپ تعلیمی اورقانونی اداروں کے سربراہ رہے،جس سے اس ریاست کو بڑا سنبھالاملا، پھر بعض حالات کی بناپر ۱۹۵۰ء میں آپ نے پاکستان ہجرت کی اور اپنی علمی وتعلیمی ،قانونی وسیاسی صلاحیتوں کو اس نو تعمیر مسلم ریاست کی صحیح خطوط پر تشکیل کے لئے وقف کردیا، اسلامی دستور کی ترتیب اور ’’ آل پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ اور ’’ جمعیۃ علمائے اسلام‘‘ میں آپ کی شرکت بڑی اہمیت کی حامل تھی ، آپ وہاں دارالمصنفین کے طرز پر ایک علمی ادارہ بھی قائم کرنا چاہتے تھے اور بہت سے علمی وتعمیری منصوبے آپ کے دل ودماغ میں تھے ۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ تاریخ ندوۃ العلماء ج ۲ص۴۸۲۔