مکاتبت سلیمان |
|
لئے آپ دیکھیں گے کہ جنہوں نے اسلام میں مجددانہ یا مجاہدانہ کارنامے انجام دیئے ہیں ، ان میں سے اکثر افراد روحانی حیثیت سے بلند مقام رکھتے تھے، اس سلسلہ میں حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ تحصیل حاصل ہے کہ ان کی یہ جامعیت مسلمات میں سے ہے اور حد تو اتر کو پہونچ چکی ہے۔ ان کے رفقائِ جہاداوران کے تربیت یافتہ اشخاص کے جوش جہاد ، شوق شہادت ، محبت دینی بغض فی اللہ کے واقعات قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہیں ، جب کبھی ان کے مفصل واقعات سامنے آئیں گے تواندازہ ہوگا کہ یہ قرن اول کا ایک بچا ہوا ایمانی جھونکا تھا جو تیرھویں صدی میں چلا تھا ، اور جس نے دکھادیا تھا کہ ایمان، توحید اور صحیح تعلق باللہ اور راہ نبوت کی تربیت وسلوک میں کتنی قوت اور کیسی تاثیر ہے ، اور بغیر صحیح روحانیت اور اصلاح کے پختہ جوش وجذبہ اور ایثار وقربانی اور جاں سپاری کی امید غلط ہے۔ ان حضرات کے بعد بھی ہم کو اہل سلسلہ اور اصحاب ارشاد دینی جدوجہد اور جہاد فی سبیل اللہ کے کام سے فارغ اور گوشہ نشین نہیں نظر آتے، شاملی کے میدان میں حضرت حاجی امداد اللہ ، حضرت حافظ ضامن ، مولانا محمد قاسم ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہم انگریزوں کے خلاف صف آرا نظر آتے ہیں ، حافظ حضرت ضامن وہیں شہید ہوتے ہیں ، حاجی صاحب کو ہندوستان سے ہجرت کرجانی پڑی ہے، مولانا نانوتوی ومولانا گنگوہی کو عرصہ تک گوشہ نشین اور مستور رہنا پڑتا ہے۔ پھر مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ (جن کو ہندوستان کے مسلمانوں نے بجاطور پر شیخ الہند کے لقب سے یا دکیا ) انگریزوں کے خلاف جہاد کی تیاری کرتے ہیں ، اور ہندوستان کو ان کے وجود سے پاک کرکے ایک ایسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں مسلمانوں کا اقتداراعلیٰ اور ان کے ہاتھ میں ملک کی زمام کار ہو، ان کی بلند ہمتی ان کو ترکی سے تعلقات قائم کرنے اور ہندوستان وافغانستان وترکی کو ایک سلسلہ جہاد میں منسلک کرنے پرآمادہ کرتی ہے ۔ ریشمی خطوط ، انور پاشاکی ملاقات مالٹہ کی اسارت، ان