مکاتبت سلیمان |
|
یہاں سے اٹھ کر جب خانقاہ پہنچا تو بعد نماز حضرت والا کی طرف سے حضرت کی آخری تصنیف بوادر النوادر کاایک نسخہ مولانا جمیل احمد صاحب نے ہدیہ لاکر عناعت فرمایا اور یہ ارشاد سامی پہنچایا کہ میرے مضامین سے اقتباسات جمع کرکے شائع کرو ،اس حکم کو اپنی ہدایت و رہنمائی کانسخہ سمجھ کر اپنی سعادت کا اظہار کیا،دوسرے دن حاضری کے موقع پر حضرت نے اپنی زبان مبارک سے خود یہ ارشاد فرمانا چاہا تو خاکسار نے حضرت کی زحمت تکلم کے خیال سے عرض کیا کہ یہ ارشاد مبارک مولانا جمیل صاحب کے ذریعہ پہنچ چکا ہے، مگر وہاں سے اٹھنے کے بعد مولانا جمیل صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ حضرت کا مقصود کیا ہے، یعنی اس کتاب بوادر سے اقتباس یا عام کتابوں سے ،انہوں نے فرمایا اس کو میں نے اچھی طرح خود بھی نہیں سمجھا،بعد کی حاضری میں موقع پاکر میں نے تفصیل چاہی تو ارشاد ہوا نہیں ،عام کتابوں میں جو مضمون مفید نظر آئیں ،ان کو یکجا کر لیا کرو۔٭ ۱؎ ------------------------------ ٭ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی اس وصیت کے مطابق حضرت سید صاحب ؒ بہت کچھ کام کرنا چاہتے تھے ، لیکن مشاغل کی کثرت اور صحت کی مسلسل خرابی کی وجہ سے جس انداز پر آپ کا م کرنا چاہتے تھے اس کی تکمیل نہ فرماسکے، آپ کے رفیق حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا، تجدید تصوف،تجدید تعلیم وتبلیغ، تجدیدِ معاشیات وغیرہ منظرعام پر آئیں ، تجدِید دین کا مل کے مقدمہ میں حضرت سید صاحب نے اس کام کا تعارف اور اس کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے ، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں : ’’ان حالات میں بڑی ضرورت تھی کہ اس اصلاح وتجدید کے خاکے کوجس کو ایک مصلح وقت اپنی تصنیفات ورسائل میں سپرد کرگیا ہے اور جن پر زبان کی کہنگی اور طریق اداکی قدامت کا پردہ پڑا ہے، ان کو موجودہ زمانہ کے مذاق اور تقریر وتحریر کے نئے انداز کی روشنی میں اجاگر کیا جائے‘‘ (تجدید دین کامل ص۳۲) اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اسی کی توفیق سے اس ناکارہ کو بھی اس کام کی توفیق ہوئی چنانچہ مختلف موضوعات سے متعلق اب تک تقریباً ساٹھ کتابیں چھوٹی بڑی تیار ہوچکی ہیں اور ہند وپاک میں برابر شائع ہوتی رہتی ہیں (مرتب) ۱؎ یاد رفتگاں ص۲۵۹