مکاتبت سلیمان |
|
اس حالت میں ہے ، بھائی صاحب نے نسخہ لکھا اور تشریف لے آئے، سید صاحب اس زمانہ میں اتنے دل برداشتہ تھے کہ دار العلوم میں قیام بھی نہیں فرمایا، ہمارے ہی گھر میں مقیم تھے، میں نے ایک مرتبہ تنہائی میں موقع پاکر عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ علی احمد کی زبان سے آپ کی شان میں کوئی لفظ نکل گیا، اس طوفان بے تمیزی میں کچھ بعید نہیں کہ ان پر جذباتیت غالب آئی ہو اور ناگفتنی کا ارتکاب کیا ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے ، ’’من اٰذیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب‘‘ اور آپ تو ان کے محسن اور مربی بھی تھے،۱؎ سید صاحب نے اس کے جواب میں تواضع اور فروتنی کے الفاظ فرمائے اور کہا کہ میں کیا چیز ہوں میں نے دوبارہ عرض کیا اور دعا کی درخواست کی ، سید صاحب نے اس پر سکوت فرمایا، دوسرے یا تیسرے دن مجھ سے فرمایا کہ مولوی علی صاحب میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کردی، اب اس واقعہ کو سید صاحب کی کرامت سمجھا جائے یا اس کو کسی اور بات پر محمول کیا جائے کہ عزیز موصوف بالکل اچھے ہوگئے، اور جہاں تک مجھے علم ہے یہ دورہ پھر کبھی نہیں پڑا ، افسوس ہے کہ یہ شعلۂ مستعجل بالکل نو عمری میں ۱۹۵۰ء میں گل ہوگیا۔ ع حسرت ان غنچوں پہ ہے جب بن کھلے مرجھاگئے ۲؎ ------------------------------ ۱؎ حضرت سید صاحب ؒ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے نام ایک خط میں اس حادثہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : جو شخص اس فتنہ کا بانی ہے۔ چند ماہ پہلے تک میں نے ہمیشہ اس پر بھروسہ کیا، بڑھایا اور توقعات قائم کیں ، لیکن دفعتہ تھانہ بھون کی نسبت کے بعد اس نے [؟وہ] ایسے طریقے سے حملہ آور ہوا جو میرے گمان میں بھی نہ تھا، ان کی گربہ مسکینی جو مجھ پر سالہا سال تک ذریعہ شفقت ومحبت بنی رہی۔ ۱۰؍ اگست ۱۹۴۳ء مولانا عبدالماجد صاحب حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں :یہ اشارہ غالباً ایک ایسے ندوی کی طرف ہے جو بعد کو پاکستان چلے گئے تھے اور وہیں اب کئی سال ہوئے کہ ان کا انتقال ہوگیا اس وقت طلباء میں ممتاز تھے ۔ عبدالماجد (مکتوبات سلیمانی، ج:۲ ، ص: ۱۴۰) ۲؎ پرانے چراغ، ص:۴۱،۴۲، ج:۱۔