مکاتبت سلیمان |
|
پڑھنے پڑھانے اور علوم جدیدہ سے بقدر ضرورت واقفیت کا مرکز سمجھنے پر قانع نہ تھے، دوسرے مختصر وبلیغ الفاظ میں وہ’’ لسان العصر‘‘ اکبر الہ آبادی کی اس تعریف کو پسند نہیں کرتے تھے جو انھوں نے فضلائے ندوہ کا امتیاز بیان کرنے کے لئے خود سید صاحب کی نوجوانی میں کی تھی ؎ اور ندوہ ہے زبان ہوشمند وہ ندوہ کو قلب درد مند، ذہن ارجمند اور زبان ہوشمند ، تینوں کا مجموعہ دیکھنا چاہتے تھے، اور اسی ترتیب وتناسب کے ساتھ کہ پہلا مقام قلب درد مند کا ، دوسرا ذہن ارجمند کا اور اس کے بعد ان کی ترجمانی کے لئے زبان ہوشمند ہو، ندوہ میں دینی شخصیتوں اور دینی مرکزوں سے جو بیگانگی عرصہ سے چلی آرہی تھی، اس میں کچھ کمی تو خود سید صاحب کے اس جدید تعلق اور رجحان سے پیدا ہوئی جس کا اوپر تذکرہ ہوا، اور کچھ کمی مولانا الیاس صاحبؒ کے اس ہفت روزہ قیام سے جو ندوہ ہی کے مہمان خانہ میں تھا، اور جس میں انہوں نے اس ماحول کو پورے طور پر اپنے سوزِ دروں اور اپنی روح اور اپنے جسم کی بے تابی سے بے چین اور متحرک رکھا، لیکن سید صاحب اس سے زیادہ چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اب ندوہ کے فرزند اور دار العلوم کے طلباء ادب اور تاریخ ہی کو اپنی کوششوں اور فتوحات کا نشانہ اور اپنے سفر کی آخری منزل نہ سمجھیں وہ دوبارہ اقبال کی زبان میں گویا تھے ؎ خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں وہ چاہتے تھے کہ فرزندان ندوہ کے سامنے وہی شخصیتیں قابل تقلید اور منتہائے کمال نہ ہوں جو علم وادب اور تاریخ کے لئے ایک رمز وعلامت بن گئی ہیں ، بلکہ وہ اپنی تحریک کے داعیوں اور اپنی درسگاہ کے بانیوں میں سے ان لوگوں کو بھی مثالی نمونہ کے طور