مکاتبت سلیمان |
کی دومثالیں ہمارے حلقہ میں ہمارے سامنے گذری ہیں ، ایک مولانا سید سلیمان ندوی ؒ اور دوسرے مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ کی ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک صاحب نے جوہائی کورٹ کے جج رہ چکے تھے انہوں نے تعجب سے کہا کہ مولانا سید سلیمان صاحب ندوی ؒ علامہ شبلی ؒ کے شاگرد ہوکر مولانا تھانوی ؒ کے مرید ہوگئے؟مولانا تھانویؒ کو ان کا مرید ہونا چاہئے تھا ۔ اور ندوی حلقہ میں بھی اس پر چہ میگوئیاں رہیں ، لوگوں نے سید صاحب کو خطوط لکھے، خود سید صاحب نے ہمارے سامنے کہا عجیب بات ہے کہ لوگ مجھے بڑا بھی مانتے ہیں اور احمق بھی سمجھتے ہیں اور مجھے مشورہ بھی دیتے ہیں کہ آپ کو تھانہ بھون نہیں جانا چاہئے تھا ، آپ نے ندوہ کی توہین کی اور علامہ شبلی ؒ کے نام کو بٹہ لگایا، ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد اور بے شمار محققانہ کتابوں کی تصنیف وتالیف کے بعد آپ دیوبند کے ایک عالم کے پاس گئے ۔ امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ سے کسی نے کہا آپ ایسے شخص کے درس میں بیٹھتے ہیں جو آپ کے درس میں بھی شریک ہونے کے قابل نہیں تو انہوں نے جواب دیا یا بنی انما یجلس الإنسان حیث یجد صلاحہ‘ ’’آدمی وہاں پر بیٹھتا ہے جہاں دل کا فائدہ نظر آتا ہے‘‘ کیا ہمیں دل کے علاج کی ضرورت نہیں ؟ ہمیں اپنے دل کو حرارت سے بھرنے اور نور یقین سے بھرنے کی ضرورت نہیں ؟ یہ مثالیں ہمارے سامنے کی ہیں ۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ جو ہمارے عہد کے عظیم ترین مصنف تھے، یہ میں مسجد میں بیٹھ کر کہہ رہاہوں ، ان کی تصانیف مقدار کی حیثیت سے بھی کچھ کم نہیں اور تنوع کی حیثیت سے بھی کچھ کم نہیں ، اور پھر قدروقیمت کے لحاظ سے بھی کچھ کم نہیں ۔ وہ اور مولانا عبدالباری ندویؒ دونوں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے پاس پہنچے ، کوئی مدرسی اور گروہی عصبیت حائل نہیں ہوئی، کوئی شہرت کا جو بہت بڑا فتنہ ہے جن کی شہرت سے مستشرقین بھی مرعوب تھے اور اپنے سوالات کے جوابات ان سے مانگتے