مکاتبت سلیمان |
|
کے متبعین خاص کو بھی اس اختیار خاص سے حسب استعداد حصہ ملتا ہوگا،اس لیے عرض ہے کہ ہم ناقصوں کی تربیت کے لیے حضرت والا چند روزاور اس دنیا میں قیام منظور فرمائیں ۔‘‘خط کے جواب میں لکھوادیا’’تم اپنے دماغ کا کسی حاذق طبیب سے علاج کراؤ ۔‘‘پھر حاضرین سے خطاب کرکے فرمایا ’’ او ل تو یہ ثابت نہیں کہ جو انبیاء (علیہم السلام) کو ملتاہے ،اس میں اولیاء و مشائخ کو بھی حصہ ضرور ہی ملتا ہے ۔‘‘اور اس کے بعد فرمایا ’’اور اگر ایسا بھی ہوتو انبیاء علیہم السلام نے کیاکیا؟ (یعنی اللہ تعالیٰ کے قرب ہی کوحیات دنیا پر ترجیح دی)۔ ایک دفعہ بعد ظہر خط لکھواکر فارغ ہوچکے تھے کہ اونگھ آگئی ،ہوشیار ہوئے تو فرمایا کہ ایسا معلوم ہوا کہ اس تخت پر ایک لفافہ رکھا ہے جس پر عبد العزیز لکھا ہے،خواجہ صاحب نے عرض کی ابھی حضرت نے خطوط لکھوائے ہیں وہی خیال قائم رہا ،ارشاد ہوا ،ہاں یہ سچ ہے ،مگر عبد العزیز نام کیوں ہے ،بات ختم ہوگئی ،مجلس کے برخاست کے بعد خواجہ صاحب نے مجھ سے پوچھاکہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی عمر کیا تھی؟میں نے کہااسی بیاسی برس یاد آتاہے(اب دارالمصنفین آکر دیکھا تومعلوم ہوا کہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ کی عمر شریف اکاسی برس کچھ مہینے ہوئی ہے ،بہر حال اس سے خواجہ صاحب کی نکتہ شناس نظر حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تشابہ حال پر پہنچ گئی۔ ہر چند تاکید تھی کہ شدت ِ علالت کی اطلاع کسی کو نہ دی جائے،احباب اشارات وتلمیحات اور اطلاعات میں اپنے متعلقین اور دوستوں کو اطلاع دیتے تھے ،غرض یہ تھی کہ زائرین ہجوم نہ کریں ،اس پر بھی دور دور سے معتقدین آجاتے تھے ،ایک صاحب نے پشاور سے آنے کی اطلاع کرائی ،دوسرے نے گورکھپور سے ،کسی نے کسی اور دور مقام سے ،مگر ہر ایک سے یہی ارشاد ہواکہ اجازت نامہ کہاں ہے ،جب وہ معذوری ظاہر کرتے اور اعتراف قصور کرتے تو فرماتے تمہاری غلطی کا خمیازہ میں کیوں اٹھاؤں ،پھر حاضرین