مکاتبت سلیمان |
|
جواب دیا، تو ارشاد ہوا کہ ان کی عادت بے اطلاع آنے کی نہ تھی، حضرت کے عزیز خاص مولانا جمیل احمد صاحب نے عرض کی ،علالت کی (خبر)سن کر چلے آئے ہوں گے، نماز ظہر کے بعد مجلس میں حاضری ہوئی، ضعف سے بستر پر لیٹے تھے، مصافحہ فرمایا خاکسار نے دست مبارک کو بوسہ دیا، شفقت سے بشاشت ظاہر فرمائی، سفر کا حال پوچھا ، کسی خادم کے ساتھ نہ لینے پر نصیحت فرمائی، قیام کے دن پوچھے ، خاکسار نے بھوپال کے سفر کی ضرورت ظاہر کی کہ سرکار بھوپال نے اپنی ریاست میں مسلمان عورتوں کے طلاق وتفریق کے مسائل کے طے کرنے کے لئے علماء اور اہل قانون کی ایک مجلس مقرر کی ہے، اسی کی شرکت کے لئے مع مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب یہاں سے جانا چاہتا ہوں ، اس لئے مجلس کی تاریخ کی اطلاع تک یہاں چند روز رہناچاہتا ہوں ۔ فرمایا اللہ تعالی والیۂ بھوپال پر رحمت فرمائے کہ انہوں نے مسلمان عورتوں کے حال پر رحم کھایا ،خاکسار نے عرض کی کہ حضرت وہاں اب والیہ نہیں ، والی ہیں ،فرمایا ،ٹھیک ہے، غرض اس حالت میں بھی کہ ضعف پوری شدت پر تھا ،تکلم میں تکلف تھا ،پھر بھی حاضرین مجلس پرشفقت فرماکر ملفوظات سے ذرا ،تھم تھم کر بہرہ ور فرمارہے تھے اور لوگوں کے آئے ہوئے خطوط سن رہے تھے اور بدستور جواب لکھوارہے تھے ،بلکہ بعض بعض خطوط پر خود دست مبارک سے بھی لکھ دیتے تھے، کبھی جو قوت پاتے اور اس وقت کام کرنے لگتے یا ملفوظات ارشاد فرمانے لگتے تو تھوڑی دیر کے لئے حاضرین کو یہ خیال ہونے لگتا کہ حضرت بیمار ہی نہیں ،مگر ادھر جوش بیاں کم ہوا اورادھر سر تکیہ پر رکھ دیا ہمیشہ کی عادت یہ تھی کہ بڑا تکیہ پیٹھ سے لگاکر سر کو بے سہارے اونچا رکھتے تھے ،یہی حال اس وقت بھی تھا ،دیکھنے والوں کو تکلیف معلوم ہوتی اوراس مشورہ کو جی چاہتاتھا کہ دوسرا تکیہ اور رکھ کر اس پر حضرت سر مبارک کو رکھ لیں ،چنانچہ میں نے اس سلسلہ میں یہ عرض کیا ،تو ارشاد ہوا نہیں ،اس کی حاجت نہیں ،بعد میں خواجہ صاحب (خواجہ عزیز الحسن