مکاتبت سلیمان |
|
اصل شیٔ جو اخلاص فی الدین، طلب رضا، حصول قرب اور اعمال واخلاق قلب ومقامات ہیں ، اور جن سے مقصود رذائل سے پاکیزگی اور فضائل سے آراستگی ہے، تمام تر متروک ہوگیا تھا، صدیوں کے بعد حضرت حکیم الامت ؒ کے تجدیدی مساعی نے اس فن کو پھر سلف صالحین کے رنگ میں پیش کیا، اور ہر قسم کے اضافوں اور آمیزشوں سے پاک کر کے کتاب وسنت کے نور میں اس تاریک زمانہ کے اندر پھر ظاہر کیا، اور زبان وقلم سے ان مسائل پر اتنا کچھ لکھا اور بیان فرمایا کہ اب طالب پر اصل طریق کا کوئی گوشہ اندھیرے میں نہیں رہا ، وللہ الحمد! اس سلسلے میں پہلی چیز قصد السبیل ہے جو پچاس ساٹھ صفحوں کا مختصر رسالہ ہے، لیکن اس کوزہ میں دریا بند ہے، فن سلوک کے وہ تمام حقائق وتعلیمات جو سالہا سال میں معلوم ہوسکے ہیں ، اور جن کے نہ جاننے سے سالکین وطالبین غلط راستوں پر پڑکر منزل مقصود کو گم کردیتے ہیں ، اس میں لکھ دیئے گئے ہیں ، اگر کوئی طالب صادق صرف اسی ایک رسالہ کی تعمیل وتکمیل میں عمر صرف کردے تو اس کے لئے انشاء اللہ کافی ووافی ہے۔ جاہل پیروں اور دکاندار صوفیوں نے ایک مسئلہ یہ گھڑا ہے کہ شریعت اور طریقت دو چیزیں ہیں اور اس زور وشور سے اس کو شہرت دی ہے کہ عوام تو عوام خواص تک پر اس کا رنگ چھاگیا ہے ، حالانکہ یہ تمام تر لغو اور بے معنی ہیں ، حضرت حکیم الامت ؒ نے تمام عمر لوگوں کو یہی تلقین فرمائی کہ طریقت عین شریعت ہے، احکام الہی کی باخلاص تمام تعمیل وتکمیل ہی کا نام طریقت ہے اور یہی خواص امت کا مذہب ہے اور جس نے اس کے سوا کہا وہ دین کی حقیقت سے جاہل اور فن سلوک سے نا آشنا ہے، اس بارگاہ کے ایک حلقہ بگوش کا شعر ہے ؎ اب تو مے نوشی ہے عین شرع بر فتوی شیخ اب وہی ہوگا فقیہہ شہر جو مے نوش ہے