مکاتبت سلیمان |
|
السلیم الی مزایا القرآن الکریم ‘‘سے ماخوذ ومستنبط ہے ، جس کی تصریح کتاب کے دیباچہ میں کردی گئی ہے، ان دو کے علاوہ مولانا نے خود اپنے اضافوں کو ’’قال المسکین ‘‘کہہ کر بیان فرمایا ہے، یہ حصہ بھی اچھا خاصہ ہے، اور اخیر کی سورتوں میں زیادہ تر ا ضافات ہی ہیں ، جن میں مؤلف نے ان سورتوں کے موضوع اور عمود کی تعیین فرمائی ہے، چونکہ یہ امور زیادہ تر ذوقی ہیں ، اس لئے ان ذوقیات کی نسبت ہمیشہ رائیں مختلف ہوسکتی ہیں ، تاہم ان سے مولانا کے ذوق قرآنی کا اندازہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ تفسیر البیان میں بھی ربط ونظم پر گفتگو التزام کے ساتھ کی گئی ہے۔ (۲) اشرف البیان لما فی علوم الحدیث والقرآن: مولانا کے چند مواعظ سے ان کے ایک معتقد وخادم نے ان اقتباسات کو یکجا کردیا ہے، جن میں آیات ِ قرآنی اور احادیث کے متعلق لطیف نکات وتحقیقات ہیں ، افسوس ہے کہ اس کام کو اگر زیادہ پھیلائو کے ساتھ کیا جاتا تو اس کے کئی حصے مرتب ہوسکتے تھے۔ (۳) دلائل القرآن علی مسائل النعمان: مولانا کو حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ سے جو شدید شغف تھا، وہ ظاہر ہے ، ان کا مدت سے خیال تھا کہ احکام القرآن ابوبکر جصاص رازی اور تفسیرات احمدیہ ملاجیون کی طرح خاص اپنی تحقیقات اور ذوق قرآنی سے ان آیات اور ان کے متعلق مباحث ودلائل کو یکجا کر دیں جن سے فقہ حنفی کے کسی مسئلہ کا استنباط واخراج ہو، لیکن یہ کام انجام نہ پاسکا، آخر میں یہ خدمت انہوں نے اپنے مسترشد خاص مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کو سپرد فرمائی کہ وہ ان کی ہدایت کے مطابق اس کو تالیف فرمائیں ، چنانچہ مفتی صاحب اس کام میں مصروف ہوگئے، جب وہ مدرسہ سے الگ ہوئے تو خانقاہ امدادیہ میں جاکر خاص اس کام کی تکمیل میں لگ گئے، مولانا روزانہ کی مجلس میں اس کے متعلق جوجو نکتے ان کو یاد آجاتے تھے، بیان فرماتے، اور جناب مفتی صاحب اس کو اپنے