مکاتبت سلیمان |
|
اور تیرہویں صدی کے وسط میں مولاناشاہ اسماعیل شہید دہلوی اور مولاناسید احمد بریلوی شہید۔ بیرونِ ہند حجاز میں کچھ ایسے بزرگ گزرے ہیں ،جن کے فیض سے علومِ حدیث کو دنیائے اسلام میں رواج ہوا اور ان کی برکت سے ہندستان اور حجاز یکساں مستفید ہوئے، چنانچہ گیارہویں صدی میں ابراہیم بن حسن کردی نزیل مدینہ ،اور بارہویں صدی میں شیخ صالح بن محمد بن نوح نزیلِ مدینہ کے نام بعض محدثین نے لئے ہیں ۔شیخ ابراہیم بن حسن کروی کے صاحبزادہ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی ہیں جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے استاد ہیں ۔ گیارہویں صدی کے مجدد وقت حضرت شیخ احمد سرہندی کو مجددکے لقب سے سب سے پہلے ملاعبد الحکیم سیال کوٹوی نے ملقب کیا، جو شاہجہاں کے عہد کے سب سے بڑے عالم تھے، اور جن کی تصنیفات دنیائے اسلام میں شائع ورائج ہیں ، اللہ تعالی نے اس لقب کو ایسا مقبول کیا کہ زبانِ خلق پر ان کا نام ہی مجدد الف ثانی قرار پایا۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کارنامے سب کے سامنے ہیں ، اور انہوں نے خود بھی اپنے متعلق اپنی کتاب تفہیمات الہیہ میں ادھر اشارہ کیا ہے ، حضرت مولانا اسماعیل شہید کی ذات سے ہندوستان میں دین اسلام نے جو قوت وتوانائی پائی اور عقائد اسلام جس طرح رسوم وبدعت سے پاک ہوئے اور بہت سی مردہ سنتیں جس طرح ان کے دم قدم سے زندہ ہوئیں اور اب تک ہیں وہ محتاج دلیل نہیں ، حضرت مولانا شاہ اسماعیل کے ساتھ حضرت مولانا سید احمد شہیدؒ بریلوی کا نام لینا بھی مناسب ہوگا، گو یہ دونوں ہستیاں ایک جان دو قالب ہوگئی تھیں ، اور ان میں سے جن کو چاہو مجدد کے وصف سے متصف مان لو۔