مکاتبت سلیمان |
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ (المتوفی ۱۰۱ ھ کو اور دوسری صدی کا مجدد امام شافعیؒ (المتوفی ۲۰۴ ھ )کو مانا‘‘۔ تیسری صدی میں امام ابو الحسن اشعری اور پھر امام الحرمین اور پھر امام غزالیؒ کو بہتوں نے اس منصب کے قابل قرار دیا ،اس کے بعد اہل حدیث نے حافظ ابن تیمیہ کو بھی ساتویں صدی کا مجدد بتایا، ہندو ستان میں دسویں صدی کے خاتمہ پر حضرت شیخ احمد سرہندی ، پھر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے بعد ایک جماعت نے مولانا اسماعیل شہید ؒ کو اس منصب کا اہل تسلیم کیا۔ حافظ سیوطیؒ نے نویں صدی میں ایک نظم میں ان بزرگوں کے نام گنائے ہیں ، جن کو بعض خواص امت نے مجددوں میں شمار کیا ہے ،چنانچہ حافظ سیوطی۱؎ کے بتائے ہوئے اسماء مبارکہ یہ ہیں ،نویں صدی میں انہوں نے صرف اپنے متعلق امید ظاہر کی ہے مگر ان کے معاصر امام سخاوی بھی اس عہدہ کے دعویدار ہیں اس لیے دونوں کے نام لکھے جاتے ہیں : ۱۔ پہلی صدی عمر بن عبد العزیزالمتوفی ۱۰۱ھ ۲۔ د وسری صدی امام شافعی المتوفی ۲۰۴ ھ ۳۔ تیسری صدی حافظ بن شریح امام ابو الحسن اشعری ۴۔ چوتھی صدی امام باقلانی ،امام سہل بن با ابو حامد ۵۔ پانچویں صدی امام غزالی ۶۔ چھٹی صدی امام رازی ، رافعی ------------------------------ ۱ ؎ اصل بات وہی معلوم ہوتی ہے کہ اس طرح کے سارے اکابر نے اپنی جگہ کوئی نہ کوئی تجدیدی خدمت انجام دی ہے، لیکن اگر حدیث تجدید کو قبول کیا جائے تو ’’صدی کے سرے‘‘ کی قید وتخصیص کسی تخصیصی مجدد کو بھی ضروری مقتضی ہے۔ واللہ اعلم (مؤلف)