مکاتبت سلیمان |
|
سمجھا جاتا ہے یعنی اس سے ایک ،دواور چند بھی سمجھے جا سکتے ہیں ،جیسے ’’مِنَ النَّاسِ مَن یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَاھُمْ بِمُؤمِنِیْن‘‘کی آیت میں اٰمنا اور ھم کی جمعیت سے ظاہر ہورہاہے کہ من کے لیے ایک کا ہونا ضروری نہیں ، اس لئے بالکل ممکن ہے کہ مختلف ملکوں میں یا مختلف اصلاحوں اور مختلف مفاسد کے مقابلہ میں تجدید ِدین کے لحاظ سے ایک ہی وقت میں کئی مجد دظہور کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علماء نے بعض دفعہ ایک ہی وقت میں کئی بزرگوں کو مجدد مانا ہے۔ حدیث میں علی رأس کل مائۃ آتا ہے یعنی ہر صدی کے سرے پر ،سرا ابتدا اورانتہا دونوں پر بولا جاتا ہے ، چنانچہ بعض شارحین ابوداؤدنے لغت سے دونوں استعمالوں کو ثابت کیا ہے ،اس لئے راس کل مائۃ کا صحیح ترجمہ صدی کے سرے پر کے بجائے تخصیص کے ساتھ ابتداء اور انتہاء پر نہیں آنا چاہیئے ۔ ایک اور بات بھی ذہن میں رہنی چا ہیئے کہ صدی کے سرے پر مجدد کی پیدائش ہونا ضروری نہیں ،بلکہ اس وقت اس کے تجدیدی مشن کا آغاز ہوتا ہے جس کو حدیث میں بعثت کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے ، خود آنحضرت ﷺاپنی پیدائش کے چالیس برس کے بعد مبعوث ہوئے۔ ایک اور نکتہ کو بھی کھول دینا ضروری ہے حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ مجددِدین کو نیا کردے گا یعنی رسوم و بدعات و فسادات کی کہنگی کو دور کرکے اصل دین کو ظاہر کرے گا اس لئے مجدد کی بڑی پہچان جس سے خواص اس کو پہچان اور عوام جان سکتے ہیں کہ اس کی تعلیم و تلقین اور جد وجہد اور دعوت وتبلیغ سے زمانہ کی ظلمتیں اور خیالا ت کی بدعتیں اور اعمال کے مفاسد دور ہوکر وہ اصل دین نمودارہوجائے۔جس کی صحیح تصویر نبی کریم علیہ الصلوٰ ۃ والتسلیم کے نگار خانۂ کتاب و سنت میں محفوظ ہے۔