مکاتبت سلیمان |
|
کی موافقت حاصل کرنا ذہن میں آیا کہ عوام پر اس کا خاص اثر ہوتا ہے ، ۱؎ اس لئے میں نے عزیز موصوف کو مصارف دیکر مشورہ دیا کہ جہاں مناسب ہو بھیج دیا جائے، میں ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے جناب کو بھی تکلیف دے کر یہ موقع دیا کہ میں جناب کا مخاطب بن سکا ، غرض یہ واقعہ ادھر سے ہوا۔ بہر حال حجاب مرتفع ہونے کے بعد اب مضامین محبت کا جواب عرض کرتا ہوں ، جناب کی تواضع نے ضرور مجھ کو ایک معتد بہ درجہ میں معتقد بنادیا، اور غالب یہ ہے کہ آئندہ اس میں اضافہ اور قوت ہو، باقی طرز عبارت یا استدلال کی پسندیدگی وعدم پسندیدگی ، سو اس کے متعلق اعتقاد دِلی سے ایک نظیر عرض کرتا ہوں کہ سادے کپڑے پہننے والے کو کسی طرح یہ حق نہیں کہ رنگین کپڑے پہننے والے کو ناپسند کرے بشرطیکہ مقصود ستر بوجہ مشروع محفوظ رہے اور (رہا)زبان کا فیصلہ سو دونوں شقوں کو اختیار کرنے سے مجھ کو ایک ایک عذر مانع ہے، اردو زبان تو جناب کی شان سے گری ہوئی ہے اور عربی زبان سے میری شان گری ہوئی ہے کیوں کہ میں عربی زبان پر قادر نہیں ، اس لئے اس کو جناب ہی کی رائے پر چھوڑتاہوں ۔ مسئلہ کے متعلق جس عنوان سے رائے سامی ظاہر فرمائی ہے، ا س سے سہل اور دل میں اتر جانے والا عنوان کم نظر آتا ہے۔ بارک اللہ فی معارفکم۔ عبارت کے متعلق جو ارشاد فرمایا ہے اس سے میں کاتب عبارت کا زیادہ معتقد ------------------------------ ۱ ؎ حکیم الامت قدس سرہٗ نے جب بھی کوئی کتاب چھوٹی یا بڑی خود تحریر فرمائی یا اپنی نگرانی میں لکھوائی تو اس وقت ملت کی کوئی نہ کوئی ضرورت وقتی اور منفعت ان کے پیش نظر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ مصنفات اشرفیہ میں ’’ بیان القرآن‘‘ اور’’ اعلاء السنن‘‘ جیسی خالص علمی اور ضخیم کتابیں بھی ہیں ، اور اصلاح الرسوم اور اغلاط العوام جیسے چھوٹے رسالے بھی شامل ہیں ، یہ حکیم الامت کے جذبۂ شفقت کی کھلی دلیل ہے۔ اعلی اللہ مقامہ۔