مکاتبت سلیمان |
|
------------------------------ یازراعت پیشہ یا ملازمت پیشہ وغیر وغیرہ ،میں کوشش کرکے ان کے متعلق روایتیں جمع کردوں گا اور احکام بتلادوں گا مگر کسی نے میری مددنہ کی بڑے کام کی کتاب ہوتی۔ اسی کے متعلق میں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا تھا کہ اگر کثیرۃ الوقوع معاملات پر دوسرے ائمہ کے مذاہب پر فتوی دیاجائے تو کوئی حرج تو نہیں ؟ حضرت نے فرمایا تھا کہ کوئی حرج نہیں اس سے بہت ہی قوت ہوگئی تھی کہ اب تو کوئی مانع ہی نہیں رہا اور میں خود اس لئے نہیں لکھ سکا کہ مجھ کو معاملات یا واقعات ہی کی خبر نہیں اس لئے اگر تجارت پیشہ وزراعت پیشہ، ملازمت پیشہ اہل صنعت وحرفت یہ سب ان چیزوں کے متعلق واقعات بصورت استفتاء جمع کر کے دیدیتے تو میں سوال وجواب کی صورت میں ان کے احکام جمع کردیتا، اگر کسی مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے مذہب پر جواز نہ نکلتا تو میں نے یہ طے کیا تھا کہ امام شافعی ؒ کے مذہب پر فتوی دیدوں گا، امام مالک کے مذہب پر فتوی دیدوں گا، امام احمد بن جنبل کے مذہب پر فتوی دیدوں گا اور اگر ان سے بھی کوئی صورت نہ نکلے گی تو ان کی سہل تدابیر بتلاؤں گا کہ یوں کرلیا کرو جس صورت سے جواز نکل آتا اور اگر کوئی بات سمجھ ہی سے باہر ہوتی تو اس کا کوئی علاج نہیں معذوری ہے ۔ اور اب اتنے بڑے کام کی ہمت نہیں رہی۔ ضعف کے سبب تحمل نہیں ۔ (الافاضات الیومیہ ج ۶ ص ۱۳۵ ملفوظ نمبر ۲۳۸ مطبوعہ ملتان) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ عرصہ ہوا میں نے ہر پیشہ کے لوگوں سے وقتا فوقتاً انفرادی صورت میں کہا تھا کہ ہر قسم کے معاملات جو کہ ذرائع معاش ہیں متعارف صورتیں ضبط کرلیں جاویں اور میرے پاس بھیج دی جاویں ، میں بصورت رسالہ ان کے احکام شرعیہ کو لکھوں گاتاکہ حوادث وقتیہ کے احکام عام طور سے معلوم ہوجاویں ، اور ان میں بھی اس کی کوشش کروں گا کہ حتی الامکان وسعت دی جاوے خواہ دوسرے ہی امام کا قول لینا پڑے بشرطیکہ مذاہب اربعہ سے خروج نہ ہو ،اور اس وسعت کے اہتمام کی ضرورت یہ تھی کہ بعض صورتوں میں ابتلا ہے اس لئے سہولت کی کوشش کی جاوے مگر کسی نے بھی میری اعانت نہ کی اب اگر ان معاملات کے ضبط کا بھی کچھ انتظام ہوجاوے تو اب اتنی قوت نہیں رہی کہ اس خدمت کو انجام دے سکوں ۔ (ملفوظات حکیم الامت ملفوظ نمبر۱۶۵ ، ص ۱۴۱ج۵ مطبوعہ ملتان)