اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ایک مرتبہ عید کے موقع پر آپ نے لوگوں میں وعظ کیا اور صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ’’ اَیُّھَا النَّاسُ تَصَدَّ قُوْا‘‘ پھر عورتوں کے مجمع میں بھی آپؐ نے صدقہ کی ترغیب دی ،اسکے بعد آپ اپنے مکان پر تشریف لے آئے، ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اپنا نام لے کر حاضری کی اجازت چاہی کہ زینب اجازت طلب کررہی ہے، آپؐ نے فرمایا ای الزیانب؟ کونسی زینب؟ بتایا گیا عبداللہ ابن مسعود کی بیوی، آپؐ نے حاضری کی اجازت دیدی، اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا ہے اور میرے پاس میرے ذاتی زیورات ہیں جسے میں صدقہ کرنا چاہتی ہوں، تو ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں اور میرابیٹا تیرے صدقہ کے زیادہ مستحق ہیں ، میں کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا ۔ ابن مسعود نے صحیح کہا تیرا شوہر اور تیرا لڑکا تیرے صدقہ کے زیادہ مستحق ہیں، (بخاری) حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عورتیں ازواج مطہرات کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا تذکرہ قرآن میں کیا ہے، اور ہمارا قرآن میں کوئی ذکر ہی نہیں، کیا ہم میں کوئی قابل ذکر شی نہیں ہے؟ ایک روایت میں ہے کہ عورتیں کہنے لگیں’’ لَوْ کَانَ فِیْنَا خَیْراً لّذُکِرْنَا‘‘ اگر ہم میں کوئی خیر ہوتی تو ہمارا بھی ذکر قرآن میں ہوتا، اسپر یہ آیت نازل ہوئی کہ جس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی تذکرہ کیا گیا، اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُوْمِنِیْنَ وَ الْمُوْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ اِلٰی آخرالایۃ۔ (روح المعافی ۲۲/۲۳) حضرت عون بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ایک دن ہم حضرت ام الدر داء کی خدمت میں پہنچے اور دیر تک باتیں کرتے رہے، پھر ہم نے عرض یا کہ شاید آپ اکتا گئی ہیں؟ فرمانے لگیں کیا کہتے ہو، ہرکام میں میری نیت عبادت کی رہتی ہے، مگر علمی مذاکرے سے زیادہ مجھے کسی کام میں بھی لذت نہیں ملتی۔