اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
تعالیٰ نے صرف اسی دولت علم کو ’’خیر کثیر‘‘ کہا ہے ،اس کے علاوہ کسی چیز کو بھی خیر کثیر نہیں کہا ہے ارشاد باری ہے ’’وَمَنْ یَّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْاُوْتِیَ خَیْرًاکَثِیْرًا‘‘ جس کو دین کا فہم اور علم مل گیا اس کو بہت بڑی دولت مل گئی۔ پس اتنی عظیم دولت کو لے کر کسی ادنیٰ دولت پر نظریں جمانا ،حقیرشی سے متاثر ہوجانا یہ اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے اور اپنی قدر کو نہ جاننا ہے۔ خدارا! آپ اپنی عظمت اور اپنی قیمت کو پہنچانئے! آپ کا کیا مقام ہے آپ نیابت نبوت کا تاج اپنے سر پر رکھنے جارہے ہیں، لہٰذا آپ کی وہی شان ہونی چاہئے جو شان انبیاء علیہم السلام کی اور تمام نبیوں کے سردار تاجدار مدینہ ؐ کی تھی ،ہر نبی کا متفقہ نعرہ تھا، لَاَاسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا۔ لہٰذا کسی کی ادنیٰ دولت اور دنیا پر رال ٹپکانا، یا اس کی طرف کسی طرح کا میلان یا اس کا حرص و لالچ یا کسی جاہ و جلال اور مال و منال والے سے حق کہنے میں مرعوبیت اور اس کی جی حضوری یا کسی سے دنیا کے بارے میں سوال یا اشراف نفس یہ چیزیں شان نیات نبوت کے بالکل منافی ہیں اور علم و حکمت کے صاف ستھرے دامن کو داغدار کرنے کے مرادف ہیں۔ ……بلکہ آپ کی تو یہ شان ہوکہ اللہ کی ذات عالی کے ساتھ کامل یقین و توکل کی کیفیت پیدا ہو اور ایساکامل و ثوق پیدا ہوکہ اپنے منصب و مقام کی عظمت و علو مرتبت ساری فانی چیزوں کے مقابلہ میں ظاہر ہوجائے اور کبھی بقضا و قدر تنگی اور فقر کے حالات بھی آجائیں تو آپ کی شان یہ ہو’’یَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَائَ مِنَ التَّعَفُّفِ‘‘ آپ اپنے حال میں ایسے مست ہیں کہ دیکھنے والا آپ کو پہچان ہی نہیں سکتاکہ آپ کن حالات سے دوچار ہیں؟ وہ تو آپ کو خوش حال اور صاحب مال گمان کررہا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول ؐ نے فرمایا علماء انبیاء کے امین ہیں، انہیں ہدایت خلق کی امانت سپرد ہوئی ہے، لیکن یہ اسی وقت تک ہے کہ بادشاہوں