اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
جائے اور حصول مقصد کی خاطر وہ جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کی جائے جس کے بغیر دین و دنیا کا نہ کوئی کام ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ (مقدمہ دینی دعوت) پس ضروری ہے کہ طلبہ اپنی طالب علمی کی زندگی میں فارغ اور چھٹیوں کے اوقات میں اس کی بھی مشق کریں، اس عمومی دعوت و تبلیغ کی محنت کو، اس کے طریقۂ کار کو سیکھیں کہ اسی راہ سے امت کے بہت بڑے طبقہ میں دین پہنچے گا، کیونکہ مدارس ، خانقاہوں اور مساجد و مکاتب میں تو وہی لوگ آئیں گے جو کچھ نہ کچھ طلب رکھتے ہیں اور یہ امت میں بہت کم فیصد مجمع ہے، امت کا سوادا عظم اور بہت بڑا طبقہ تو وہ ہے جو بالکل بے طلب ہیں بے فکر ہیں صرف نام کے مسلمان ہیں ، جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، ایسے بے طلب لوگوں میں دین کی بیداری کی اس کے علاوہ کیا شکل ہوسکتی ہے کہ بے غرض بنکر، قربانیوں کے ساتھ ان میں گھس کر دین کی محنت کی جائے۔ اسی محنت کے ذریعہ ان کی ایمانی پژمردہ چنگاریوں کو ہوا ملے گی اور ان کے اندر کی وہ صلاحتیں ’’ بفحوائے حدیث اَلنَّاسُ مَعَادِنُٗ کَمَعَادِنِ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ‘‘ انسان کانیں ہیں جیسے سونے چاندی کی کانیں، اجاگر ہوگی اور دین کی طرف منتقل ہوگی۔ اسی محنت سے انسانوں کی زندگیاں بدلے گی اور غلط زندگیوں سے تائب ہوکر صحیح زندگی کی طرف رخ کریںگے اور اس کے نتیجہ میں مدارس کو طلبہ، خانقاہوں کو مریدین، اور مساجد کو مقتدی ملیں گے حضرت مولانا الیاس صاحبؒ اس کام کو ’’قرن اول کا ہیرا‘‘ فرمایا کرتے تھے۔ اس پر فتن دور میں جہاں چاروں طرف ایمان سوز ہوائیں چل رہی ہیں، اسلام کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، اسلام پر اور مسلمانوں پر نت نئے حملے کئے جارہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں سے تنفر کو پھیلایا جارہا ہے اس دعوت کی مبارک