پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
محاورہ پر نازل ہوا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ اس وقت حضرت آدم علیہ السلام مقامِ بُعد میں تھے تو ان کے مقامِ بُعد کو مقامِ قُرب سے تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات ان کو عطا فرمائے تھے کہ ہمارا نبی اس کو پڑھ کر اپنے بعد کو قُرب سے تبدیل کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ قیامت تک کے لیے ایک نسخہ عطا فرمادیا کہ اے میرے بندو! اگر تم سے کوئی گناہ ہوجائے اور تم مجھ سے دور ہوجاؤ تو رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَاالخ پڑھنا شروع کردو تو تمہارے مقامِ بُعد کو ہم مقامِ قُرب سے تبدیل کردیں گے۔ اس کے متعلق خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎ جب فلک نے مجھ کو محرومِ گلستاں کردیا اشک ہائے خوں نے مجھ کو گل بداماں کردیا یاد رکھو! خون کے آنسو بہاؤ تب گناہ معاف ہوں گے۔ آنسو جگر کا خون ہے جو اللہ کے خوف سے پانی ہوگیا ، آنسو بہاکر رو کر اللہ سے معافی مانگو جنت سے جو دوری ہوئی تھی خون کے آنسوؤں کی بدولت اللہ نے پھر جنت ہاتھ میں دے دی۔ جو آدمی اللہ کو راضی رکھتا ہے، نافرمانی سے بچتا ہے ایک اعشاریہ بھی حرام لذت کو درآمد، استیراد اور امپورٹ نہیں کرتا اس کو دنیا ہی میں ایک جنت مل جاتی ہے اس لیے ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: قَالَ الصُّوْفِیَاءُ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْاٰیَۃ وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ؎ اللہ سے ڈرنے والوں کو دو جنت ملتی ہیں جَنَّۃٌ فِی الدُّنْیَابِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی ایک جنت دنیا ہی میں مِل جاتی ہے، وہ ہاتھ پیر سے دنیا کے کام کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں، بیوپار کرتے ہیں مگر دل میں مولیٰ رہتا ہے اور جَنَّۃٌ فِی الْعُقْبٰی بِلِقَاءِ الْمَوْلٰی؎ اور ایک جنت آخرت میں ملے گی جہاں اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہوگی۔ یہ صوفیوں کی تفسیر ہے، صوفیا کے نزدیک لقائے مولیٰ جنت سے بھی افضل ہے، اللہ کا دیدار جنت سے افضل نہیں ہے؟ اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ صوفیوں کے کلام میں محبت کی چاشنی ------------------------------