پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ اپنا یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ ؎ شُکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا دردِ مستقل کے معنیٰ ہیں کہ درد میں استقلال آگیا ورنہ بعض لوگ ہیں کہ کبھی تو فرشتہ ہوگئے، رات دن ذکر و فکر ہے اور آنسو بہارہے ہیں اور کبھی شیطان ہوگئے، شیطان کی سی حرکتیں کررہے ہیں تو یہ دردِ دل مستقل نہیں ہے۔ دردِ دل وہی معتبر ہے جو مستقل ہو جس کو صوفیا اور اہلِ علم استقامت علی الدّین سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو دین پر مستقیم ہوگیا سمجھ لو اس کا دردِ مستقل ہوگیا اور وہ کہتا ہے کہ ؎ اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے شاید کیوں لگایا ہے؟ تاکہ تکبر اور دعویٰ سے حفاظت رہے ورنہ ان کو تو ایسا دل حاصل ہی تھا۔ دل، دل کب بنتا ہے؟ جب نفس کی دلدل سے نکل آئے ورنہ گناہوں کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے اور جو ایک لمحہ بھی اللہ کی نافرمانی میں نہ گزارے، ایک لمحہ بھی کسی حسین عورت یا مرد کو نہ دیکھے، ایک لمحہ بھی اللہ کو ناراض نہ کرے اور اگر کبھی خطا ہوجائے تو رو رو کر اللہ سے معافی مانگ لے تو سمجھ لو اب وہ مومنِ کامل ہوگیا اور حامل دردِ مستقل ہوگیا۔ لوگ اُسے مومنِ کامل کہیں گے، وہ خود نہیں کہے گا کہ میں مومنِ کامل ہوگیا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک صاحب ہیں جو بہت دیندار ہیں مگر ایک کمی ہے کہ اپنے کو دیندار سمجھتے بھی ہیں۔ دیندار تو بنو لیکن اپنے کو دیندار نہ سمجھو۔ تزکیۂ نفس یعنی اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کرنا فرض ہے لیکن اپنے کو پاک سمجھنا حرام ہے اور دونوں کا ثبوت قرآن پاک میں ہے فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ اپنے کو پاک مت سمجھو ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ؎ وہ تم کو خوب جانتا ہے جب تم اپنی ------------------------------