پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کو جب زلیخا نے بُلایا کہ میرے ساتھ گناہ کرو تو حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے اور نبی کی سنت یہ نہیں ہے کہ گناہ کے موقع پر بجائے بھاگنے کے وہیں سجدہ میں گر کر اللہ سے فریاد کرنے لگیں، وہاں سجدہ بھی نہ کرو، وہاں فریاد بھی قبول نہیں، وہاں تمہاری آہ بھی قبول نہیں، وہاں سے بھاگو، سنتِ نبی یہی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام جسم کو لے کر، قلب کو لے کر، آنکھ کو لے کر وہاں سے بھاگے عیناً قلبا و قالباً انہوں نے فرار اختیار کیا یعنی آنکھ کو بچایا، قلب کو بچایا اور جسم کو بھی لے کر وہاں سے بھاگے۔بھاگنے کی برکت سے شاہی تالے ٹوٹے ہیں، معمولی تالے نہیں۔ یہ سمجھ لو کہ حسینوں کو صرف دیکھنا ہی مُضر نہیں ان کا قُرب بھی مُضر ہے، جب جسم قریب ہوا تو جسم کی وجہ سے قلب قریب ہوا اب لاکھ نگاہ بچاتے رہو تب بھی نقصان سے نہیں بچ سکتے۔ اگر کسی گھی کے کنستر کا ڈھکن رانگہ لگا کر خوب بند کردو اور کنستر کے قریب آگ جلادو تو اگرچہ کنستر میں آگ کو دیکھنے کی طاقت نہیں ہے لیکن آگ کی گرمی سے بم کی طرح پَھٹ جائے گا۔ ایسے ہی کسی حسین کے پاس بیٹھ جاؤ اور کتنی ہی آنکھ بند کرو تھوڑی دیر میں میاں کی میانی خراب ہوجائے گی، لہٰذا حسینوں سے تین بُعد اختیار کرو: عیناً قلباً وقالباً یعنی آنکھ بھی بچاؤ، دل بھی بچاؤ اور جسم کو بھی لے کر ان سے دور ہوجاؤ، اتنا دور ہوجاؤ کہ اس حسن کے دائرۂ کشش سے نکل جاؤ۔ اگر میگنٹ کے سامنے اٹھنّی رکھ دو تو جیسے جیسے میگنٹ حرکت کرے گا اس کے ساتھ اٹھنّی ناچے گی۔ اگر حسینوں کے ہاتھوں پر ناچنا ہو اور خود کو ذلیل کرنا ہو تو حسینوں کے قریب رہو، یہ حسین تم کو نچادیں گے اس لیے حسینوں سے آنکھوں کو بچاؤ، دل کو بچاؤ، دل میں بھی حسینوں کے خیالات نہ لاؤ اور جسم کو بھی اُن سے دور لے جاؤ۔ احقر راقم الحروف نے عرض کیا کہ حسینوں سے عیناً قلباً وقالباً فرار کی دلیل میں حضرت یوسف علیہ السلام کا عمل پہلی بار حضرتِ والا نے بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا کہ نبی کا عمل کتنی بڑی حجت ہے کہ نبی ہونے کے باوجود اس وقت سجدہ میں نہیں گرے کہ اللہ سے فریاد کریں بلکہ آپ وہاں سے بھاگے عیناً بھی قالباً بھی اور قلباً بھی۔ یعنی آنکھوں کو بھی بچایا، جسم کو بھی بچایا اور دل کو بھی بچایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تالے کھول