پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اگر مٹی سے پوچھو کہ اے حسینوں کی مٹی! تیرا کون سا حصہ گال تھا، کون سا حصہ بال تھا، کون سا حصہ رسیلی آنکھ تھا تو کوئی جواب نہیں آئے گا۔ وہ مٹی بزبانِ حال کہے گی کہ میں تو صرف مٹی ہوں، آہ! میرے نقش و نگار سے تم دھوکے میں آگئے۔ میرا شعر ہے ؎ جنازہ حسن کا جب دفن ہو پیری کی قبروں میں کہوں کیا آہ اس کی داستاں عہدِ جوانی کی کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ دنیا کی ہر چیز فانی ہے، ختم ہونے والی ہے۔وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ؎ اور باقی رہے گا اللہ کا نام، تفسیر روح المعانی میں ذوالجلال کا ترجمہ لکھا ہے صَاحِبُ الْاِسْتِغْنَاءِ الْمُطْلَقِیعنی اللہ تعالیٰ سارے عالم سے مستغنی ہے۔ سارا عالم اگر کافر ہوجائے تو ان کی عظمت کو ذرا نقصان نہیں ہوگا اور سارا عالم اگر ولی اللہ ہوجائے اور سجدہ میں سر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہتا رہے تو ان کی عظمت میں ایک اعشاریہ اضافہ نہیں ہوگا، وہ سارے عالم سے بالکل مستغنی ہے اور وَالْاِکْرَامِ کے کیا معنیٰ ہیں؟صَاحِبُ الْفَیْضِ الْعَامِّ؎یعنی باوجود اس کے کہ وہ مطلق مستغنی ہے مگر اس کا فیض سب پر عام ہے مومن پر بھی، کافر پر بھی، کافروں کو بھی روٹی دے رہا ہے۔ ذُوْالْجَلَالِ کے بعد وَالْاِکْرَامِ کیوں فرمایا؟ کیوں کہ شبہ ہوتا کہ جب وہ صاحب الاستغناء المطلق ہے، سارے عالم سے بے پرواہ ہے تو سارے عالم کی ضروریات سے بھی غافل ہوجائے گا کیوں کہ دنیا میں مستغنی آدمی کسی کا خیال نہیں رکھتا، کوئی پریشان ہے تو ہوا کرے۔ اس لیے آگے فرمادیا وَالْاِکْرَامِ کہ مستغنی ہونے کے باوجود ساری مخلوق پر اس کا فیضِ عام ہے، یہاں تک کہ اپنے دشمنوں کو بھی روٹی دے رہا ہے،وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ وہی ایسا محبوب ہے جو باقی رہنے والا ہے اس لیے حقیقی محبوب وہی ہے۔ اس لیے اُسی سے دل لگاؤ، باقی سب چیزیں فانی ہیں، شمس و قمر پر گہن لگنے والا ہے۔ سورج پر بھی گہن لگتا ہے، چاند پر بھی گہن لگتا ہے۔ ایک شخص بارہ بجے دوپہر کے سورج پر عاشق ہوگیا لیکن ------------------------------