پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کون می گوید بیامن خوش پیم واں فسادش گفت رومن لاشیم ہر چیز کی جوانی کہتی ہے کہ آؤ آؤ میں بہت حسین ہوں، خوش پیکر ہوں، خوش رفتار ہوں، آؤ مجھے دیکھو، میں بہت اچھی معلوم ہوتی ہوں، میں بہت پیار کے قابل ہوں لیکن وہی جوانی جب بڈھی ہوگئی، صورت بگڑ گئی، حسن زائل ہوگیا تو اس کا یہ زوال اور فساد کہتا ہے کہ میرے چاہنے والو! میرے پاس سے بھاگ جاؤ، میں لاشے ہوں، لاش ہوچکا ہوں اب میں کچھ نہیں ہوں، اَب میرے حُسن کا نشان بھی باقی نہیں ہے، اب اپنی غزل در جیب بیانداز، میری جوانی میں میری شان میں جو غزل کہی تھی اب اُسے جیب میں رکھ لو اور بگٹٹ بھاگ جاؤ۔ ہوگیا نا علاج مجاز کا؟ ارے میاں! جائز دنیا بھی دل لگانے کے قابل نہیں ہے کیوں کہ فنا ہونے والی ہے ؎ گیا حُسن خوبانِ دل خواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا علی گڑھ میں ایک لڑکا تھا جو سب کا نورِ نظر اور معشوق بنا ہوا تھا، پروفیسر بھی اس کے عاشق تھے لیکن تین سال بعد حُسن بِگڑ گیا، سینہ پر بال، پیٹھ پر بال یعنی سینہ پر صحرائے سینائی اور پیٹھ پر فلسطینی چھاپہ مار، پیٹ پر بال،بغل میں بال، کندھوں پر بال یعنی بال بردار جہاز ہوگیا تو اب اس کو دیکھ کر سارے عشّاق بھاگ گئے۔ اس وقت کسی شاعر نے یہ شعر کہا ؎ گیا حُسن خوبانِ دل خواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا لَاۤ اِلٰہَ کی تلوار سے ان حسینوں سے دل کو پاک کرو۔ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُنہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ، نہیں ہے کوئی موجود مگر اللہ، نہیں ہے کوئی مطلوب مگر اللہ، نہیں ہے کوئی محبوب مگر اللہ۔ اور آخر میں قبر میں دفن ہونے کے بعد نہ ان کی آنکھیں ملیں گی، نہ بال ملیں گے نہ گال ملیں گے، تمام اعضاء قبر میں گل سڑ کے ختم ہوجائیں گے، صرف مٹی رہ جائے گی۔