پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
نہیں۔ ہزاروں لاکھوں دل ٹوٹ جائیں اللہ کے قانون کے سامنے دل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ دیکھیے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فرمادیا کہ اگر کسی حسین کو دیکھ کر ٹوپی ٹھیک کرلی، داڑھی کو ہاتھ سے برابر کردیا تو یہ بھی حرام ہے کیوں کہ حسین کی نظر میں تم منظور بننا چاہتے ہو۔ یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے۔ حسینوں کا ہدیہ واپس کرنا بڑے اللہ والوں کا، اللہ کے شیروں کا کام ہے۔یہاں بڑے بڑوں کا دل پسیج جائے گا کہ ارے یار! اس کا دل دکھے گا، کہے گی کہ ملا لوگ خشک ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمتِ مردانہ چاہیے، ہمتِ شیرانہ چاہیے۔ شیرہرن کا خون پیتا ہے، تم بھی اپنے نفس کا خون پیو چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے ، چاہے سمجھے کہ مُلّا خشک ہوتے ہیں، چاہے غیبت بھی کرے، اِدھر اُدھر برائی بھی بیان کرے، تم سب بدنامی برداشت کرو پھر آسمان کی طرف دیکھو کہ اے اللہ! آپ کے لیے دنیا بھر کی بدنامی برداشت کرتا ہوں ورنہ اگر ہدیہ لے لیا اور اس کی محبت بڑھ گئی اور گناہ کا وسوسہ دل میں آگیا تو کیا ہوگا۔اس لیے حسینوں کا ہدیہ قبول نہ کرو، نہ لو نہ دو۔ ایک آدمی خواہ کتنا ہی بدصورت ہو، ناک کا چپٹا، آنکھ کا بھینگا ہولیکن جب اس کو کوئی عورت دیکھتی ہے یا کوئی حسین لڑکا دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں کچھ اس کی نظر میں جچ رہا ہوں، ضرور کوئی بات ہے جب ہی تو یہ مجھ کو دیکھ رہی ہے یا دیکھ رہا ہے، حالاں کہ وہ بے وقوف سمجھ کر دیکھتے ہیں کہ ذرا دیکھ لو اس بے وقوف کو۔ غالب نے کہا تھا ؎ چاہتے ہیں خُوبرویوں کو اسدؔ آپ کی صورت کو دیکھا چاہیے کہتا ہے کہ میں خوبصورتوں کو چاہتا ہوں لیکن ذرا آپ کی صورت تو دیکھیے اس حماقت کی کوئی حد ہے کہ بڈھا کُھوسٹ ہے اور حسینوں کو چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ حسین بھی مجھے پسند کرتے ہیں۔ ذرا آپ اپنی صورت دیکھ لیجیے، لہٰذا ہر شخص اپنی جیب میں آئینہ رکھے، جب کوئی حسین دیکھے تو آئینہ میں اپنی شکل دیکھو، اگر شکل اچھی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرو اور کہو کہ میرا حسن کسی نامحرم عورت یا مرد کے لیے جائز نہیں۔ حسن کا شکریہ ہے کہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ کرے۔