پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
یہ زمانہ فتنہ کا ہے اس لیے کھول کھول کے بیان کرنا پڑتا ہے، جس زمانے میں لوگ شرم وحیا سے رہتے تھے تو ان کی اصلاح بھی شرم و حیا سے ہوتی تھی، اب زمانہ بے شرمی و فحاشی کا آگیا تو مجبوراً شیخ کو علاج صاف صاف بیان کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کا مریض اپنی نظر میں حقیر ہوجاتا ہے۔ اپنی نظر میں حقیر اور ذلیل رہنا یہ بہتر ہے اس سے کہ خود کو بایزید بسطامی سمجھے اور کارِ یزید کرتا رہے۔ آدمی جب اپنی نظر میں بُرا ہوتا ہے تو اللہ کی نظر میں اچھا ہوتا ہے اور جب اپنی نظر میں اچھا ہوتا ہے تو اللہ کی نظر میں بُرا ہوتا ہے۔ تو یہ اچھا ہے کہ ہم لوگ اپنی نظر میں ذلیل رہیں تو اللہ کی نظر میں اچھے رہیں گے۔بعض میں یہ مرض بھی ہے کہ اللہ کے نزدیک ہماری عزت ہو۔ اللہ کے نزدیک عزت چاہنا جائز نہیں ہے۔ اللہ ہمیں اس وقت سے جانتا ہے جب ہم ماں کے پیٹ میں حیض اور منی تھے: ہُوَ اَعۡلَمُ بِکُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وہ تم کو خوب جانتا ہے جب تم کو زمین سے پیدا کیا تھا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔ اس آیت کا یہی مقصد ہے کہ تم کو اپنی تخلیق پر نظر رکھنی چاہیے، اپنے کو بڑا نہ سمجھنا چاہیے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب تم ماؤں کے پیٹ میں باپ کی منی اور ماں کے حیض میں لت پت تھے لہٰذا فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ؎ اپنی طرف تزکیہ کی نسبت نہ کرو، اپنا تزکیہ تو کرو مگر یہ مت سمجھو کہ میں مزکّٰی ہوگیا، ’’تزکیہ کردن‘‘ واجب ’’تزکیہ گفتن‘‘حرام۔ اپنے کو پاک کرنا تو واجب ہے مگر اپنے کو پاک سمجھنا حرام ہے۔ سب سے بڑی بیماری تقدس مآبی ہے۔ اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ تکوینی طور پر ایسا انتظام ہوجائے کہ تقدس مآبی نِکل جائے۔ یہ بہت بڑی رحمت ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ میرا بھانڈا پُھوٹ گیا۔ اگر میرا بھانڈا نہ پھوٹتا تو میں شیخ کی نظر میں معزز رہتا۔ یہ بالکل ------------------------------