پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہرگز یہ مقصود نہیں ہوتا بلکہ آیندہ کی حفاظت کے لیے یہ مضمون بیان ہوتا ہے۔ عام عنوان سے بیان ہوتا ہے، کسی کا نام تو لیا نہیں جاتا۔ جن میں وہ امراض ہوتے ہیں ان کو سبق مل جاتا ہے۔ مجھ کو علم ہے کہ کون کون لوگ ہیں جو اس لباس میں ارتکاب کرچکے ہیں، بہت سے دوست، بہت سے پیر بھائی اپنے حالات بیان کرتے ہیں تو اس مضمون سے سب کو نفع ہوتا ہے اور اپنے کو سب سے حقیر بھی سمجھتا ہوں، ہر مسلمان سے اپنے کو حقیر سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں، ہر مسلمان سے کمتر فی الحال اور ہر کافر سے کمتر باعتبار مآل کے۔ کسی کو حقیر سمجھ کر یہ مضمون نہیں بیان کرتا ہوں، بس یہی نیت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نافرمانی سے ہم کو اور ہمارے دوستوں کو محفوظ فرمادے۔ شیخ کے ساتھ یہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ وہ جو کہتا ہے ہمارے فائدہ کے لیے کہتا ہے۔ جیسے کل میں نے کہا کہ بعض لوگ گول ٹوپی اور لمبے کُرتے میں پاجامہ کھولتے ہیں، بایزیدبسطامی کی شکل میں ننگِ یزید کام کرتے ہیں تو اس سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔ ایک نقصان تو اس کا اپنا ہوتا ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوکر فاسقین میں شامل ہوجاتا ہے اور دوسرے اس حلیہ میں جس کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے اس کو دوسرے صالحین کے ساتھ بدگمانی ہوتی ہے کہ سب ایسے ہی ڈھونگ ہے اور لمبے لمبے کُرتے پہننے والوں کے ایسے کرتوت ہوتے ہیں، لہٰذا ہمارے کرتوت نیک لوگوں کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔ شیخ کے ذمہ یہ صفائی پیش کرنا نہیں ہے کہ اس نے کیوں یہ مضمون بیان کیا لیکن شفقت کا تقاضا یہی ہے کہ نا سمجھ آدمی کو سمجھا دیا جائے کہ بدگمانی نہ کرے اور یہ نہ سوچے کہ شیخ مجھ کو ذلیل کررہا ہے۔ یہی سمجھے کہ شیخ انتہائی مخلصانہ، محبانہ اور مشفقانہ انداز سے مجھ کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ شیخ اگر لیپا پوتی کرتا رہے، گُو کی برائی نہ بیان کرے تو جو بلی کے گُو کی طرح گناہوں کو چھپاتا ہے اس کو نفرت ہوگی؟ اور دعا بھی کرتا ہوں: اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ؎ اے اللہ! ہدایت کے راستے میرے دل میں ڈال دے اور مجھ کو میرے نفس کے شر سے بچا۔ ------------------------------