پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کہ اگر تم نے میرا ایک پر بھی اُکھاڑ دیا تو یاد رکھو میرا شاہ تمہارے اُلّوستان کو جڑہی سے تباہ کرادے گا اور جنگل کا جنگل جلاکر خاک کرادے گا۔ اس طرح وہ باز اُلّوؤں سے جان بچاکر بھاگا۔ پس اگر کبھی حسینوں میں پھنس جاؤ تو وہاں سے بھاگو اور کہہ دو کہ میں تو بازِشاہی ہوں، میرا مقام تو اللہ تعالیٰ کا قرب ہے، میں تمہارے قریب ایک لمحہ کو نہیں رہنا چاہتا کیوں کہ تمہاری خاک تو بدلتی رہتی ہے، آج کچھ ہو کل کچھ اور ہوگے، آج حسین ہو کل غیر حسین ہوگے، آج سولہ برس کی ہو کل اسّی برس کی بڑھیا ہوکر جب آؤ گی تو تم کو دیکھ کر قے آئے گی جب کمر جھکی ہوئی ساڑھے گیارہ نمبر کا چشمہ لگاکر کوئی بڑھیا کہے کہ بھیا! ذرا راستہ پار کرادے، میرا ہاتھ پکڑلے تو کہو گے کہ ہاتھ پکڑنا تو بڑھیا کا بھی جائز نہیں۔ اس وقت تقویٰ کا بہت اعلیٰ مقام دکھاؤ گے۔ ارے تقویٰ کا اعلیٰ مقام جب ہے جب جوانی ہو، تمہاری بھی جوانی ہو اور اس کی بھی جوانی ہو، پھر اس سے نگاہ بچاؤ تو کمال ہے ورنہ بڑھیا کا ہاتھ نہ پکڑنا تو آسان ہے۔ بات تو جب ہے کہ جوان ہو پھر اس سے بچو۔ اس وقت اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو اچھے اچھے پھسل جاتے ہیں جیسے ایک بار شیطان نے ایک مولوی صاحب سے کہا کہ میں شیطان ہوں مجھ سے ذرا ہوشیار رہنا۔ مولوی صاحب کسی اللہ والے کے صحبت یافتہ نہیں تھے، دعویٰ کر بیٹھے کہ میں مولوی ہوں تو میرا کیا بگاڑے گا ، ایک لاحول پڑھوں گا تجھے بھاگنے کو راستہ نہیں ملے گا۔ شیطان نے کہا کہ مولوی صاحب! ایسی پٹخنی دوں گا کہ تم لاحول پڑھنا ہی بھول جاؤ گے۔ مولوی صاحب روزانہ دریا پار کرکے شہر جایا کرتے تھے۔ ایک دن جب دریا میں طوفان تھا تو دیکھا کہ دریا کے کنارے ایک خوبصورت لڑکی کھڑی ہوئی رورہی ہے۔ مولوی صاحب کا دل نرم ہوگیا کہ پتا نہیں بے چاری کس مصیبت میں ہے۔ پوچھا کہ بی بی! کیا بات ہے، کیوں رورہی ہو؟ کہنے لگی: دریا میں طوفان ہے میں کیسے دریا پار کروں؟ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ کون سا مشکل کام ہے، میں پار کرادوں گا، میرے کندھے پر بیٹھ جاؤ، چناں چہ اُسے کندھے پر بیٹھالیا، اس کی دونوں ٹانگیں سینہ پر آگئیں اور گردن کو اس کے خاص مقام سے رگڑ کر دل دل میں مزے لینے لگے۔ جب بیچ دریا میں پہنچے تو لڑکی نے اپنی ٹانگ اتنی بڑی کرلی کہ دریا کے کنارے پر پہنچ رہی تھی،