پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نسخہ نازل فرمایا کہ نادم ہوکر کہو:وَ اعۡفُ عَنَّا؎ تو اللہ تعالیٰ چاروں گواہوں کی گواہی کو مٹادیں گے اور خود اپنے ہاتھ سے مٹائیں گے، فرشتوں سے بھی نہیں مٹوائیں گے تاکہ فرشتے بندوں پر احسان نہ جتائیں کہ تم تو نالائق تھے ہم نے تمہارے گناہوں کو مٹایا ہے، کیا کرم ہے کہ اپنے گناہ گار بندوں کی آبرو بھی اللہ تعالیٰ کو کتنی عزیز ہے کہ فرشتوں کا احسان بھی نہیں رکھا۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ گناہوں کی اگر کوئی سزا بھی نہ ہوتی تب بھی ان کے کرم کا تقاضا ہے کہ ہم گناہ چھوڑ دیں۔ جو مالک ایسا کریم، ایسا محسن ہو اس کو ناراض کرنا شرافتِ بندگی کے خلاف ہے۔ اور گناہ سے پیٹ نہیں بھرتا، ایک گناہ کرو گے تو دوسرے گناہ کا تقاضا دل میں پیدا ہوگا، دوسرا کروگے تو تیسرے کا تقاضا پیدا ہوگا۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ پہلے پیٹ بھر کر گناہ کرلیں پھر توبہ کریں گے لیکن کان کھول کر سُن لو کہ گناہ سے کبھی پیٹ نہیں بھرسکتا۔ جب اللہ تعالیٰ جہنم سے پوچھیں گے کہ تیرا پیٹ بھر گیا تو کہے گی: ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ؎ کچھ اور مال ہے کچھ اور گناہ گار ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم مبارک رکھ دیں گے اور قدم سے مراد تجلئ خاص ہے تو دوزخ کہے گی:قَطْ قَطْ؎ بس بس یا اللہ! پیٹ بھر گیا اور ایک روایت میں ہے کہ تین دفعہ کہے گی قَطْ قَطْ قَطْ؎ تو جس طرح دوزخ کا پیٹ نہیں بھرا گناہ گاروں سے اسی طرح نفس کے دوزخ کا پیٹ گناہوں سے نہیں بھرسکتا چاہے ایک لاکھ گناہ کرلو۔ نفس یہی کہے گا:ھَلْ مِن مَّزِیْدٍ ہے کوئی اور گناہ اور جس طرح دوزخ کو سکون اللہ تعالیٰ کے قدم سے ہوا اسی طرح نفس کو سکون بھی اللہ کے قدم سے یعنی ذکر اللہ سے ہوگا، شہوتِ نفس کی آگ کو صرف اللہ کا نور ہی بجھا سکتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ معافی کا سرکاری مضمون اور معافی نامہ کے سرکاری الفاظ تک نازل فرمارہے ہیں کہ وَاعْفُ عَنَّا کے بعد کہو وَاغْفِرْلَنَااے ہمارے رب! ہمارے گناہوں ------------------------------