پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
تلواریں گئیں تو تعویذ آگئے (سامعین اس جملہ سے بہت محظوظ ہوئے) اور ان جعلی عاملوں نے تو اور بیڑا غرق کردیا، ایمان ہی خراب کردیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم عملیات نہیں کرتے تھے، ان کو تو سنت سے عشق تھا۔ جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا وہی کرتے تھے، وہی اوراد پڑھتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے مثلاً تینوں قل صبح و شام اور حَسۡبِیَ اللہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ سات مرتبہ صبح و شام۔ حدیثِ پاک میں ہے جو اس آیت کو سات مرتبہ صبح و شام پڑھے گا کَفَاہُ اللہُ مَااَھَمَّہٗ مِنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ؎ تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت کے تمام غموں کے لیے کافی ہوجائیں گے۔ حَسْبِیَ اللہُ کے معنیٰ ہیں: اللہ مجھ کو کافی ہے اور کون اللہ؟ وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ میں نے اسی پر بھروسہ کیا۔ جار مجرور جب مقدم ہوجاتا ہے تو معنیٰ حصر کے پیدا ہوجاتے ہیں اس لیے عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ کا ترجمہ یہ ہوا کہ صرف اسی پر یعنی صرف اللہ پر میں نے بھروسہ کیا اور اس پر بھروسہ کیوں کیا؟ کیوں کہ وہ عرشِ اعظم کا رب ہے جہاں سے ساری دنیا کے فیصلے اور احکامات صادر ہوتے ہیں، ہم نے وہاں سے رابطہ کرلیا ہے ہمیں پھر جن، جادو آسیب کا کیا ڈر؟ ہم کو اللہ کافی ہے، اگر اللہ کافی نہ ہوتا تو قرآن میں ہم کو کیوں سکھاتے کہ کہو حَسْبِیَ اللہُ، اللہ مجھ کو کافی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ایک نام قَھَّار ہے جس کے معنیٰ سے بڑا اطمینان ہوجاتا ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں قَھَّار کے معنیٰ لکھے ہیںاَلَّذِیْ یَکُوْنُ لَہٗ کُلُّ شَیْءٍ مُسَخَّرًا تَحْتَ قَدْرِہٖ وَقَضَاءِ ہٖ وَقُدْرَتِہٖجس کی قضا اور قدرت کے تحت ہر چیز مسخر ہو یعنی قَھَّار وہ ذات ہے جس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں۔ ہر شیٔ چاہے جادو ہو، چاہے جن ہو، چاہے آسیب ہو سب اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ لہٰذا ہر نماز کے بعد سات بار اللہ کا نام یَا قَھَّار لے کر اللہ تعالیٰ سے ہم کیوں نہ کہیں کہ یا اللہ تعالیٰ!یہ جنات، جادو، آسیب سب آپ کی قدرت کے تحت ------------------------------