پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
سزا سے حفاظت کی ضامن ہے اور رحمت انعامات دلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں جو اہلِ جنت کی دعوت کریں گے وہاں بھی یہی دو صفت ظاہر ہوگی: نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ ؎ غفور اور رحیم دونوں اسم میںبھی مغفرت و رحمت سے متعلق ہیں یعنی دنیا میں تو تم مغفرت اور رحمت مجھ سے مانگتے ہی تھے جنت کی نعمتیں بھی میرے ان دو ناموں کے صدقے میں ملیں گی۔ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ غفور رحیم کی جانب سے تمہیں یہ انعام ہے لہٰذا جنت کی نعمتیں شرمندہ ہوکر اور اپنے گناہوں کو یاد کرکے ندامت سے سر جُھکاکر نہ کھاؤ جیسے کوئی اپنے محسن کی نافرمانی کرے پھر اس کی دعوت کھائے تو اس کو شرمندگی ہوتی ہے۔ تو فرمایا: میں غفور ہوں، میں نے تم کو بخش دیا معاف کردیا۔ غفور کے بعد رحیم کی صفت شرمندگی دور کرنے کے لیے نازل کی کہ اپنے گناہوں کو اب یاد نہ کرو۔ اب آزادی سے کھاؤ میری رحمت سے کھاؤ، مہمان مکرم کی طرح کھاؤ، ذلیل اور خوار کی طرح مت کھاؤ۔ جیسے جیل میں چوروں کو روٹی دیتے ہیں تو وہ آنکھ اُٹھا کر نہیں کھاتے سر جُھکا کر کھاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے مجرمین کو اس طرح سے معاف کریں گے کہ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍیہ مہمانی ہے،تم مہمان بن کر کھارہے، ہو تم ہمارے سرکاری مہمان ہو، کتنے بڑے سرکار کے تم مہمان ہو لہٰذا اب گناہوں کو یاد کرکے شرمندہ نہ ہو، میں نے تمہارے سب گناہ بخش دیے اب میری رحمت سے عزت کے ساتھ کھاؤ۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:جَزَآءً مِّنۡ رَّبِّکَ عَطَآءً؎ کہ میری جزاء کو جزاء مت سمجھو بلکہ میری جزاء بھی میری عطا ہے۔ تمہاری حوصلہ افزائی اور دل بڑھانے کے لیے جزاء کا نام لے لیا لیکن حقیقت میں جزاء بھی میری عطا ہے۔ یہ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جزاء ہمارا دل بڑھانے کو فرمادیا جیسے چھوٹے بچے کو چیز دیتے ہیں کہ یہ تمہاری جزاء ہے لیکن وہ ------------------------------