پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
پالنے والے کو محبت ہوتی ہے، وہ بہت جلد معاف کردیتا ہے، اسی لیے ماں باپ جلدی معاف کردیتے ہیں کیوں کہ وہ پالتے ہیں اور اصلی پالنے والا تو میں ہوں، مجھ سے معافی مانگو مایوس نہ ہو اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ؎ میں بہت بخشنے والا ہوں لیکن گناہوں پر جری ہونا اور توبہ کے آسرے پر گناہ کرنا ایسا ہے جیسے افریقہ کے ڈاکٹر کہہ دیں کہ ہمارے پاس ایک مرہم ہے اگر جلنے پر لگادو تو آبلہ چھالہ اور جلنے کا زخم اچھا ہوجاتا ہے۔ آپ مرہم کی وہ ڈبیہ لے آئے اور بیوی سے کہا کہ بی بی صاحبہ! آپ آج آگ میں ہاتھ جلالو ہم مرہم بہت قیمتی لائے ہیں تو بیوی کہے گی کہ میاں! آپ ہی آزمالیں، آزمانے کے لیے ہم ہی رہ گئے ہیں۔ بہت سے بے وقوف اور گدھے نما انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کو آزماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر جری نہ ہو، اگر اللہ تعالیٰ نے انتقام لیا تو ساری بدمعاشی ناک کے راستہ سے نکل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو اپنے انتقام سے بچائے۔ گناہ سے بچنے میں پوری کوشش کرو، کوشش میں کمی نہ کرو ؎ نہ چت کرسکے نفس کے پہلواں کو تو یوں ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے نہ ڈالے اَرے اس سے کشتی تو ہے عُمر بھر کی کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے بعض لوگ نفس کے سامنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ڈال دیتے ہیں کہ آ بھائی! مجھ کو مارلے، گناہ ان کے سامنے آیا اور انہوں نے منہ کالا کرلیا، بھلا ایمان والے ایسے ہوتے ہیں؟ یہ تو حرام کام کرنے والا فاسق، بدمعاش اور نفس کا غلام ہے اس لیے گناہوں سے بچنے کی پوری کوشش کرو، جان کی بازی لگادو کہ ہم سے گناہ نہ ہو۔ کیوں؟ اس لیے کہ گناہ سے بندہ اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔ پوری کوشش کرو کہ نہ آنکھ خراب ہو نہ دل خراب ہو، کوئی گناہ نہ ہو، لیکن اگر کبھی مغلوب ہوجاؤ تو اللہ سے مایوس نہ ہو۔ پھر توبہ کرلو، توبہ کرکے پھر مستعد ------------------------------