پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ناراض کیا، نفس و شیطان ہمارے دشمن ہیں۔ ہم دشمنوں کی گود میں کیوں بیٹھیں کہ وہ ہم کو کچا چبا جائیں۔ نفس و شیطان کی بات ماننا اللہ کی بات کو پیچھے رکھنا ہے اور حماقت اور گدھا پن ہے کہ نہیں؟ گدھا نمبرون ہے وہ شخص جو دشمنوں کی بات مانتا ہے۔ اللہ نے فرمادیا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اور نفس اِنَّ اَعْدٰی عَدُوِّکَ فِیْ جَنْبَیْکَ؎ہے یعنی سب دشمنوں سے بڑا دشمن ہے جو تمہارے پہلو ہی میں ہے۔ داخلی دشمن خارجی دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لیے نفس بڑا دشمن ہے، شیطان چھوٹا دشمن ہے، کیوں کہ شیطان کو کس نے بہکایا؟ ہم تو کہہ دیتے ہیں کہ صاحب! ہمیں شیطان نے بہکادیا لیکن شیطان سے پہلے کون شیطان تھا جس نے اس کو بہکادیا اور جس کے بہکانے سے شیطان مردود ہوگیا؟ وہ شیطان کا نفس تھا جس نے کہا کہ میں آدم علیہ السلام سے بہتر ہوں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے اور آگ کا کرہ اوپر ہے مٹی کا کرہ نیچے ہے۔ اوپر والے کو نیچے والے کے سامنے جھکا رہے ہو۔ دراصل اس نے اللہ تعالیٰ پر اعتراض کیا، کمبخت نے یہ نہیں سوچا کہ اللہ کا حکم ہے، ہمارے خالق کا حکم ہے۔ ظالم میں عشق نہیں تھا ورنہ سمجھ میں آجاتا۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شیطان عالم بھی تھا اور اتنا بڑا عالم تھا کہ ہر نبی کی شریعتوں کے کلیات تو در کنار جزئیات تک اس کو یاد ہیں، کلیات اور جزئیات دونوں کا ماہر ہے۔ تمام پیغمبروں کو دیکھا ہر نبی کے زمانے میں تھا، بہت پرانا بڈھا خرانٹ ہے اور عابد بھی تھا، اتنی عبادت کی کہ ساری زمین کو سجدوں سے بھر دیا، اور عارف بھی تھا، جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ غضب کی حالت میں بھی متأثر نہیں ہوتے، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کا غصہ نازل ہورہا ہے تو اس وقت بھی ظالم دعا مانگ رہا ہے کہ میری زندگی بڑھادیجیے تاکہ میں آپ کے بندوں کو بہکاتا رہوں۔ بتائیے اللہ کے بندوں کو بہکانے کی دعا بھی کیسی مردود تھی مگر مردود دعا کو بھی اللہ تعالیٰ نے قبول کرلیا لیکن فرمایا: میں جس کو چاہوں گا ہدایت دوں گا اور پیار کروں گا، تو لاکھ بہکائے تیرے بہکانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میرے خاص بندوں نے اپنے بابا آدم علیہ السلام سے رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا سیکھ لیا کہ اے ہمارے رب! ہم سے قصور ------------------------------