پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
جو میری یاد سے اعراض کرے گا، مجھے بھول جائے گا، میری نافرمانی کرے گا اور جسم کے کسی اعضاء سے دل میں حرام لذت درآمد کرے گا پس تحقیق کہ اس کی زندگی تلخ کردی جائے گی۔ میں خالقِ حیات ہوں اُسے لطفِ حیات سے محروم کردوں گا۔ اس کی حیات اس قابل نہیں کہ اس کو حیات کہا جائے، میں اُس کی زندگی کا نام مَعِیْشَۃً رکھتا ہوں جس کے معنیٰ ہیں جینا، جیسے دوزخی جہنم میں جیے گا کہ نہ وہ زندگی ہوگی نہ موت۔ ایسے ہی نافرمان جیتا ہے اور فرماں برداروں کی زندگی کو حیات فرمایا: فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً؎ یہ لوگ حیات یافتہ ہیں۔ ان کو ہم نے بالُطف زندگی دی ہے کیوں کہ یہ لطیف کو یاد رکھتے ہیں یہ عبداللطیف ہیں اس لیے ان کو لطف دیتاہوں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ بس دوستو! اگر چین چاہتے ہو تو اللہ کی طرف آجاؤ، اللہ کی یاد والی زندگی اختیار کرلو۔ دو زندگی ہے ایک بالُطف زندگی اور دوسری تلخ زندگی۔ بولو بھئی! کون سی زندگی پسند ہے؟ حیاتِ طیبہ پاکیزہ زندگی! بس آج عہد کرلو کہ آج سے ہم اللہ تعالیٰ کو ایک لمحے کو بھی ناراض نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ کو ہر وقت راضی کریں گے۔ ہم کس کے ہیں؟ اللہ کے ہیں اور اللہ کے ہو کے رہیں گے اور اللہ کے ہوکے مریں گے۔ ہمارا مرنا، جینا اللہ پر ہونا چاہیے۔ مؤمن کی شان یہ ہے کہ اللہ پر مرنا، اللہ پر جینا سیکھ لے اور یہ کیسے آئے گا؟ اللہ والوں کی صحبت میں رہنے سے۔ اگر اللہ والے نہ ملیں تو اللہ والوں کے غلاموں کے پاس چلے جاؤ۔ میں اللہ والوں کا غلام ہوں۔ میری غلامی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اتنی طویل غلامی ہے کہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں اس پر شاہد ہیں کہ بزرگوں کے ساتھ غلامی بہت طویل عرصہ رہی ہے۔ بس اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم اور فہمِ سلیم عطا فرمائے اور یاد رکھو گناہ کرنا بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ جس کی قسمت خراب ہوتی ہے وہی گناہوں پر جری ہوتا ہے، گناہوں سے توبہ کرکے آج سے اللہ والے بننے کا ------------------------------