پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ضرور بالضرور بالطف حیات، پاکیزہ اور مزے دار زندگی دیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور دنیاوی زندگی کے لیے ہے کہ آخرت میں تو ہم اپنے وفادار بندوں کو مزہ دیں گے ہی لیکن ہم ان کی دنیاوی زندگی بھی مزے دار کردیں گے اور لام تاکید با نون ثقیلہ سے فرمایا کہ ہم ضرور ضرور ان کو بالطف زندگی دیں گے اور اگر نافرمانی کے راستوں سے لذتِ حرام تلاش کرو گے تو یاد رکھو تمہاری زندگی تلخ کردی جائے گی، تمہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی، نہ خشکی میں، نہ سمندر میں۔ جہاں جاؤ گے وہیں مصیبت بھی پیچھے پیچھے آئے گی۔ ایک ہندی مثَل ہے، جہاں جائے دولہا رانی وہیں پڑے پاتھر پانی۔ اللہ کے نافرمانوں کو کہیں بھی چین نہیں چاہے سمندر میں رہے یا خشکی پر اور کیوں چین نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا؎ اے ڈربن کے لوگو! غور سے سن لو! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو میری یاد سے غافل ہوجائے گا اور گناہوں میں حرام مزہ تلاش کرے گا، جو ظالم میری نافرمانی میں سکون تلاش کرے گا تو میں اللہ ہوں، میں کہہ رہا ہوں کہ اس کی زندگی تلخ کردی جائے گی۔ میری نافرمانی سے کوئی سکون پاجائے! ناممکن ہے۔ بادشاہوں کا کلام ایسے ہی ہوتا ہے۔ بادشاہ یہ نہیں کہتا کہ میں مجرم کی پٹائی اور ٹھکائی کروں گا اور اچھل اُچھل کے اس کے جوتے ماروں گا۔ یہ کہنا بادشاہ کی توہین ہے۔ دنیاوی بادشاہ سزا کا یوں اعلان کرتے ہیں کہ مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے اور جب کوئی انعام دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مابدولت فلاں کو یہ انعام دیتے ہیں۔ جب دنیاوی بادشاہوں کی یہ شان ہے تو اللہ تعالیٰ جو بادشاہوں کو سلطنت کی بھیک دیتے ہیں ان کے کلام کی کیا شان ہوگی، ان کے کلام میں شاہانہ اثر نہ ہوگا؟ کلام بتاتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، شاہوں کے شاہ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا ------------------------------