پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اس لیے جلدی سے جلدی نیک بن جاؤ، موت آنے والی ہے۔ ایک دن آنکھیں بند ہوجائیں گی، قبر میں اکیلےجنازہ اُترے گا، کوئی ساتھ نہیں دے گا، نہ بیوی نہ بچے، نہ دوست نہ یار، اکیلے جاؤگے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہی تمہاری آزمایش ہے کہ جلدی سے میری اطاعت میری غلامی کرکے اور توبہ کرکے پاک صاف ہوکر کون تیار رہتا ہے ؎ نہ جانے بُلالے پیا کس گھڑی تُو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ اللہ تعالیٰ نے عَزِیْز کو غَفُوْر پر مقدم کیا۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ ناموں کے استعمال اور ان کی تقدیم و تاخیر میں بڑی حکمتیں اور بڑے علوم پوشیدہ ہیں۔ عزیز کے معنی ہیں: اَلْقَادِرُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَلَا یُعْجِزُہٗ شَیْئٌ فِی اسْتِعْمَالِ قُدْرَتِہٖ؎ جو ہر چیز پر قادر ہے اور ساری دنیا مل کر اس کو اس قدرت کے استعمال کرنے میں عاجز نہیں کرسکتی،عزیز کو مقدم فرماکر اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ جانتے ہو اگر اللہ تعالیٰ تم کو بخش دے تو بڑی طاقت والی ذات سے تم کو مغفرت ملی ہے، اس کی مغفرت کی قدر کرو، وہ قادرِ مطلق ہے چاہے تو تم کو کُتا اور سُور بنادے اور چاہے تو ولی اللہ بنادے۔ عزیز کو اس لیے مقدم کیا کہ صاحبِ قدرت کی معافی کو معمولی مت سمجھو، بہت اہمیت دو، یہ کسی کمزور کی معافی نہیں ہے۔ اگر کوئی کمزور آدمی جو چار پائی پر پڑا ہوا ہے وہ کسی سے کہہ دے کہ جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا، تو جس کو ڈراتا ہے وہ کہتا ہے کہ تو میرا کیا بگاڑلے گا، چارپائی پر پڑا ہوا ہے، ایک طمانچہ ماروں گا تو پوں پوں رونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے گا، لہٰذا کمزور کی طرف سے معافی کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اللہ بہت بڑی طاقت والا ہے، اس کی معافی کی قدر کرلو، ہم معاف کردیں تو سمجھ لو تمہارا بیڑا پار ہوگیا۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ------------------------------