پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
صحبت کے ساتھ اللہ کا فضل، رحمت اور مشیّت چاہیے تب جاکر کام بنتا ہے۔ نبوت کا انکار نہیں ہے، نبوت کا انکار تو کُفر ہے، نبی تو بافیض ہے، اس پر ایمان لانا پڑے گا اس کے دروازہ پر آنا پڑے گا، اس کے دروازہ سے ہی ہدایت ملے گی لیکن ہدایت، اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں تو اپنا فضل، اپنی رحمت اس کے ساتھ کردیتے ہیں اس لیے اللہ کا فضل اور رحمت گڑگڑاکے مانگو۔ پھر اللہ تعالیٰ فضل کردیتا ہے، رحمت کردیتا ہےوَلٰکِنَّ اللہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ اللہ تعالیٰ تزکیہ کرتا ہے مَنْ یَّشَآءُ جس کا چاہتا ہے۔ یہ مَنْ بہت بڑا ہے، اس مَنْ کے سمندر میں سارا جہاں بلکہ بے شمار جہاں سما سکتے ہیں اور سب اللہ کے ولی بن سکتے ہیں۔ میں کہہ رہا تھا کہ دو قسم کے مرض ہیں: ایک جاہی دوسرا باہی، جاہی مرض شیطانی مرض ہے اور باہی مرض انسانی مرض ہے اور جاہی مرض کے مقابلے میں معمولی ہے۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام سے چوک ہوگئی اور گندم کھالیا تو آپ ندامت سے اتنا روئے کہ تفسیر علی مہائمی میں ہے کہ جتنے خوشبو دار پھول ہیں یہ آدم علیہ السلام کے آنسوؤں سے پیدا ہوئے ہیں۔ باہ والا اپنے کو خطا کار سمجھتا ہے اور جاہ والا اپنے کو گناہ گار بھی نہیں سمجھتا جیسے شیطان نے سرکشی کی، کفر کیا اور خود کو حق پر سمجھا اور تکبر سے اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کرنے لگا اور آدم علیہ السلام سے ذرا سی چوک ہوگئی، وہ گناہ بھی نہیں تھا کیوں کہ آپ معصوم نبی تھے لیکن ذرا سی چوک سے آپ پر ندامت کا حال طاری ہوگیا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ آں کہ فرزندانِ خاصِ آدم اند نفحۂ اِنَّا ظَلَمْنَا می دمند جو آدم علیہ السلام کی لائِق اولاد ہیں وہ اپنے بابا کی میراث رکھتے ہیں یعنی خطاؤں پر اِنَّا ظَلَمْنَا کا نعرہ لگاتے ہیں اور غلبۂ ندامت سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ باہی امراض کا علاج آسان ہے اور جاہی امراض کا علاج مشکل ہے۔