پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
نفس کو مٹائے ہوئے اللہ نہیں ملتا۔ اللہ کو اگر حاصل کرنا ہے تو نفس کو مٹانا پڑے گا اور یہی تعلیمِ پیغمبر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ آپ سے ملنے کا کیا راستہ ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالَنفس کو چھوڑ دو اور آجاؤ۔ سوائے انبیاء علیہم السلام کے ہر انسان کا نفس بہت ہی خطرناک ہے۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں، ان کا نفس ان کے تابع کردیا جاتا ہے۔ ان کو اپنے نفس کو مٹانا نہیں پڑتا، وہ مِٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ تب ہی تو ان کو نبوت ملتی ہے۔ نبوت کسبی چیز نہیں ہے کہ ہر شخص حاصل کرلے، نبوت وہبی چیز ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائے شاہی ہے اور اب نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن آپ کی امت میں ولی اللہ پیدا ہوتے رہیں گے لیکن اُمتی ولی اللہ کب بنے گا؟ جب کسی ولی اللہ کے ہاتھوں چڑھ جائے گا، پھر اس ولی اللہ کے فیض سے ولی اللہ بن جائے گا۔ اس لیے جاہ اور باہ ان دو چیزوں کو مٹائے بغیر کسی کو اللہ نہیں مل سکتا۔ اور باہ کیا چیز ہے؟ شہوت، اور شہوت کیا چیز ہے؟ گناہ کا تقاضا، عورتوں اور لڑکوں کو دیکھنے کا جی چاہنا، ان کو پیار کرنا، ان کو لپٹانا، چپٹانا اور ان سے منہ کالا کرنا۔ ان امراض کا علاج اللہ والوں کے پاس ہے۔ صرف کتابیں پڑھ کر اصلاح نہیں ہوسکتی۔ بہت بڑے بڑے لوگ جو علم کا پہاڑ تھے مگر گناہ نہیں چھوٹا جب تک کسی اللہ والے کا ہاتھ نہیں پکڑا۔علم سے اگر اللہ ملتا تو شیطان بھی بہت بڑا عالم تھا، یہاں تک کہ تمام پیغمبروں کی شریعتوں کے کلیات و جزئیات اُسے یاد ہیں مگر علم و عمل میں فاصلے ہوتے ہیں، وہ بغیر صحبت کے دور نہیں ہوتے۔ ایک صاحب ایک بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ حضرتِ والا کی صحبت کی کیا ضرورت ہے، ہم خود کتابیں پڑھ کر اللہ والے ہوسکتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر کتابیں پڑھ کر اللہ والے ہوسکتے ہیں تو صحابی بن جائیے۔ کہنے لگے: صحابی بننے کے لیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی ضرورت ہے۔ فرمایا کہ اچھا آپ تابعی ہوجائیے تو کہا کہ تابعی کے لیے ضرورت ہے صحابہ کی صحبت کی۔ فرمایا کہ اچھا آپ تبعِ تابعی ہوجائیے۔ کہا کہ اس کے لیے تابعی کی صحبت ضروری ہے۔ اس کے بعد مولوی صاحب خاموش ہوگئے اور عرض کیا کہ حضرت! میں سمجھ گیا کہ اللہ والا بننے کے