پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
دنیاوی محبت چند دن کی ہوتی ہے۔ جسے عشق کرنے کا شوق ہے تو ایسا معشوق ڈھونڈ کے لاؤ جس کا حسن ہمیشہ رہے مثلاً پندرہ سال کا لڑکا ہے، بہت حسین جس کو دیکھ کر مست ہورہے ہیں لیکن جب پچیس سال کا ہوگیا پھر تیس برس کا ہوگیا پھر چالیس سال کا ہوگیا تو جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جائے گی اس کی محبت سے عاشق صاحب کی ہوا کھسک جائے گی۔ میرا ایک اور شعر ہے ؎ حسنِ رفتہ کا تماشا دیکھ کر عشق کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے مان لو جو آج معشوق ہے کل وہ تھانیداری کے لیے سلیکٹ (Select)ہوگیا تو وہ عاشق صاحب جنہوں نے بچپن میں اس کے ساتھ بے اصولی کی تھی انہوں نے سنا کہ میرا معشوق تھانیدار ہوگیا ہے تو اب مارے ڈر کے راتوں کی نیند اُڑی ہوئی ہے کہ معلوم نہیں کس بَلا میں اور کس مقدمے میں پھنسادے۔ میں نے ایک فیچر بنایا تھا کہ ایک عاشق صاحب پر کسی نے کوئی ظلم کردیا تو فریاد لے کر تھانے گیا۔ وہاں دیکھا کہ جو تھانیدارتھا وہ ان کا مفعول رہ چکا تھا۔ دیکھتے ہی اس نے سپاہیوں سے کہا کہ پکڑو اس خبیث کو اور مارو اس کے سو جوتے۔ اس بدمعاش کی عادت بہت خراب تھی، اس نے بچپن میں ہم کو USE کیا تھا۔ وہاں سے جوتے کھاکر بھاگا اور ایس پی کے پاس گیا۔ دیکھا تو ایس پی کو بھی اس نے بچپن میں مفعول بنایا تھا۔ اس نے اپنے حلقے کے تمام تھانیداروں کو کہہ دیا کہ یہ جس تھانے میں بھی جائے اس کی پٹائی کرو۔ اس کے سر پر دس دس جوتے لگاؤ۔ اس کے بعد گھبرا کر وہ زکوٰۃ کمیٹی کے چیئرمین کے پاس گیا تو زکوٰۃ کمیٹی کا چیئرمین بھی اس کا مفعول رہ چکا تھا۔ اس نے پولیس کو ٹیلی فون کردیا کہ ایک بدمعاش آیا ہے اس کو گرفتار کرو اور تھانیدار پولیس کا پورا دستہ لے کر آگیا اور ہتھکڑی ڈال کر تھانے لے گیا اور دے جوتے دے لات، مارتے مارتے بھوسہ کردیا۔ بتاؤ کیا عزت ہے اس میں (حضرتِ والا نے واقعہ سنانے کے بعد انتہائی درد سے فرمایا) آہ! بہت بے وقوف اور گدھا آدمی ہے وہ جو عشقِ مجازی میں مبتلا ہے۔ عشق بس اللہ ہی سے کرو۔ ایک صاحب نے استفسار کیا کہ اللہ سے عشق کیا جائے یا اللہ والوں