پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
تو کیا کرسکتے ہیں؟ ساری کائنات میں اللہ کی اتنی نشانیاں ہیں کہ کافروں پر بھی حجت ہیں اور کافروں کو بھی ایمان لانا فرض ہے۔ کافر اسی لیے پکڑے جائیں گے کہ نشانیاں تو خود اللہ کے وجود کی دلیل ہیں۔ اللہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے میری نشانیاں نہیں دیکھی تھیں، میری نشانیاں دیکھ کر تم کیسے کافر رہے؟ پندرہ سال میں بالغ ہونے کے بعد ہر انسان میں اتنی عقل ہوجاتی ہے کہ وہ زمین آسمان، چاند سورج، سمندر پہاڑ وغیرہ بے شمار نشانیاں دیکھ کر اللہ پر ایمان لاسکتا ہے۔ اب تو ریڈیو سے تمام دنیا میں اذانیں سن رہے ہیں اور ہر کافر یہ جانتا ہے کہ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف دینِ اسلام میں نجات ہے، اسلام کے علاوہ جو دوسرا دین اختیار کرے گا جہنم میں جائے گا۔ لہٰذا ان کے ذمہ فرض ہے کہ تحقیق کریں۔ اب اگر کوئی کہے کہ جو کافر کے گھر پیدا ہوا اس کو ایمان لانا مشکل ہوگیا اور جو مسلمان کے گھر پیدا ہوگیا وہ مسلمان ہوگیا تو جو کافر کے گھر پیدا ہو اس کا کیا قصور ہے؟ جواب یہ ہے کہ ایک اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ایک عدل ہے۔ جس کو مسلمان کے گھر پیدا کیا وہ اللہ کا فضل ہے اور جس کو کافر کے گھر پیدا کیا وہ اللہ کا عدل ہے۔ عدل کیا ہے؟ کہ کافر کا بچہ جب تک بالغ نہیں ہوجاتا اس پر ایمان لانا فرض نہیں۔کیوں کہ بالغ ہونے سے پہلے اس کی عقل اس مقام پر نہیں پہنچی کہ اللہ کو پہچان سکے چناں چہ بالغ ہونے سے پہلے کافروں کے جو بچے مرجائیں گے وہ جنت میں جائیں گے۔ عدل کے اعتبار سے کافروں کو ایمان لانا پندرہ سال کے بعد یعنی بالغ ہونے کے بعد فرض کیا کہ اب تمہاری عقل اس قابل ہوگئی کہ مجھ پر ایمان لاسکے لہٰذا اب میری نشانیاں دیکھو، آسمان دیکھو، سورج دیکھو، چاند دیکھو، سمندر دیکھو، پہاڑ دیکھو اور مجھ پر ایمان لاؤ کہ کوئی ذات ہے جو قادرِ مطلق ہے، جس نے ان کو پیدا کیا کیوں کہ کوئی چیز بغیر پیدا کرنے والے کے وجود میں نہیں آسکتی۔ تو کافروں پر عدل ہے اور ہم پر فضل ہے کہ مسلمان کے گھر پیدا کرکے ایمان لانا آسان کردیا اور فضل عدل کے خلاف نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آپ نے دو مزدور رکھے اور وعدہ کیا کہ ہم دونوں کو مزدوری کے پچاس پچاس رین دیں گے اور حسبِ وعدہ شام کو دونوں کو پچاس پچاس رین دے دیے تو یہ عدل ہے اور ایک مزدور کو آپ نے کہا