پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
رحیم کے صدقے میں ہماری بخشش ہوگی۔نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ؎ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: جنت میں ہم جو تمہارا اکرام کریں گے وہ مہمانی ہے غفور رحیم کی طرف سے جو تمہارے گناہوں کو بخش دے گا تاکہ تمہیں شرمندگی نہ ہو مجرم کا جرم معاف نہ کرے اور محسن اس کو کھانا بھی کھلائے تو مجرم شرمندہ رہتا ہے، اس کو کھانے میں مزہ نہیں آتا تو غفور فرماکر اللہ تعالیٰ نے ہماری شرمندگی دور فرمادی کہ غفور نے تمہارے جرائم معاف کردیے، اب تم کو پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں، اب شرمندگی سے مت کھاؤ پیو اور رحیم فرماکر بتادیا کہ میری رحمت سے کھاؤ پیو، یہ تمہارے عمل کا بدلہ نہیں ہے، میری رحمت کا صلہ ہے۔ میرے شیخ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد جَزَآءً مِّنۡ رَّبِّکَ عَطَآءً حِسَابًا ؎کے معنیٰ یہ ہیں کہ میں جو کہہ رہا ہوں کہ یہ تمہارے اعمال کی جزاء ہے تو یہ جزاء فرمانا بھی میری عطا ہے ورنہ تمہارے اعمال ہمارے قابل کہاں ہیں۔ جیسے بادشاہ کے محل کے لیے کوئی چمار اپنا سڑا گلا بانس لے جائے کہ حضور! اسے محل کی تعمیر میں قبول فرمالیجیے اور بادشاہ اسے قبول فرمالے اور اُسے خوش کرنے کے لیے انعام بھی دے اور کہے کہ یہ تمہارے بانس کا بدلہ یعنی جزاء ہے تو بادشاہ کا یہ جزاء فرمانا بھی اس کی مہربانی اور عطا ہے۔ اسی طرح جنت کو ہمارے اعمال کی جزاء فرمانا بھی ان کی عطا ہے، احسان ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی غیر محدود شان کے سامنے ہمارے اعمال کی کیا حقیقت ہے۔ اللہ والوں سے اور اللہ والوں کے غلاموں سے یہی فنائیت سیکھی جاتی ہے۔ ورنہ شیطان نفس کے سامنے کمالات دکھاتا ہے کہ تم نے آکسفورڈ یونی ورسٹی میں ایسی عمدہ تقریر کی، فلاں کالج میں ایسی کی، فلاں رسالہ میں ایسا مقالہ لکھا، غرض تمہارے سامنے اعمال پیش کرتا ہے اور اللہ کی عظمتوں کو نظروں سے روپوش کرتا ہے تاکہ یہ دھوکا کھاجائے اور اس کے دل میں بڑائی آجائے۔ اپنے کو مٹانے کی یہ دولت صرف اللہ والوں کے پاس جانے سے ملتی ہے۔ اللہ والے ہماری حقیقت سے پردہ اُٹھادیتے ہیں کہ ------------------------------